شاہ محمود کا روسی وزیر خارجہ کو ٹیلیفون، امن کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے پر اتفاق

Last Updated On 09 January,2020 10:07 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشرق وسطی کی کشیدہ ہوتی صورتحال کے بعد سفارتی مہم میں تیزی لانا شروع کر دی ہے، ایرانی، ترکی، قطری، یو اے ای اور سعودی عرب کے ہم منصبوں سے رابطے کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔

یہ ٹیلیفونک رابطہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مشرق وسطی میں کشیدہ ہوتی صورتحال کے بعد ایران، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کریں۔

ان ملاقاتوں سے قبل شاہ محمود نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف سے رابطہ کیا ہے اور مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

ٹیلیفونک رابطے کے دوران دونوں وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا کہ کشیدہ صورتحال کو قابو میں لانے کیلئے فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا جبکہ قیام امن کیلئے دونوں نے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے پر بھی اتفاق کیا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کشیدگی میں اضافہ، خطے کے امن و استحکام کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، ہمارا اصولی اصولی موقف ہے کہ پاکستان خطے میں کسی نئے تنازعہ میں فریق نہیں بنے گا اور نہ ہی پاکستان کی سرزمین کسی علاقائی و ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: ایران امریکا کشیدگی کم کروانے کیلئے روابط جاری ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

اس سے قبل قائمہ کمیٹی امور خارجہ کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ نے خصوصی شرکت کرتے ہوئے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو سراہا گیا۔ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ پاک سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران امریکا کشیدگی کم کروانے کیلئے روابط جاری ہیں۔ خطے کے اہم ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے کر رہا ہوں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر خدانخواستہ صورتحال کشیدہ ہوتی ہے تو اس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے اور افغان امن عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے انڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی۔ یہ قوانین "ہندو رشٹرا" منصوبے اور سوچ کی ایک کڑی ہے۔ یہ وہ ہندوتوا سوچ ہے جسے مودی سرکار ہندوستان میں مسلط کرنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین کے خلاف سیکولر سوچ کے حامل ہندوستانی سراپا احتجاج ہیں۔ او آئی سی کی طرف سے بھی بھارتی امتیازی قوانین کے خلاف ردعمل سامنے آ چکا ہے۔

 

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان آئندہ ماہ ملائیشیا کا دورہ کریں گے جبکہ ترک صدر بھی فروری میں پاکستان آئیں گے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو سراہا گیا۔ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ پاک سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
 

 

Advertisement