جان ہنٹر، انگلستان میں جدید سرجری کے بانی

Last Updated On 19 June,2018 10:05 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) جان ہنٹر کا شمار سرجری کے ان ابتدائی ماہرین میں ہوتا ہے جنہوں نے اس فن کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ انگریزی داں حلقوں میں ان کو بجا طور پر بابائے جدید سرجری کہا جاتا ہے۔ جان ہنٹر 13 فروری 1728ء میں لنکاشائر (انگلستان) کے ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی دسویں اولاد تھے۔ ابتدائی تعلیم بہت معمولی ہوئی۔ زیادہ تر دلچسپی کھیل کود میں رہی۔

17 برس کی عمر میں کچھ دنوں تک اپنے بہنوئی کے ساتھ فرنیچر بنانے کا کام کیا۔ 1748ء میں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر ولیم ہنٹر کے بلانے پر لندن چلے گئے جہاں آئندہ 11 برس وہ اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ علم تشریح پڑھانے میں بٹاتے رہے۔ گویا یہی وہ مدرسہ تھا جہاں انہوں نے تشریح کا علم حاصل کیا۔ اس دوران 1749ء اور 1750ء میں انہوں نے ڈاکٹر ولیم چیسلڈن سے چیلس ہسپتال میں سرجری سیکھی۔ 1751ء میں سینٹ بار تھلمیو ہسپتال میں بھی یہ ہنر سیکھا۔ ایک بیان کے مطابق 1754ء میں وہ لندن کے سینٹ جارج ہسپتال میں شاگرد سرجن بھی ہو گئے تھے۔ 1755ء میں دل نہ لگا اور دو مہینے کے بعد وہاں سے چلے آئے۔

1756ء میں وہ سینٹ جارج ہسپتال میں ہاؤس سرجن ہو گئے۔ اس کے بعد فوج میں بحیثیت سرجن کے کام کیا اور فرانس اور پرتگال کے معرکوں میں شرکت کی۔ پرتگال سے دو سو عجائب از قسم اعضائے بدن اپنے ساتھ لندن لائے اور یہ ذخیرہ پیش خیمہ بنا اس شعبہ عجائب خانہ کا جس کی شہرت صدیوں تک ساری دنیا میں رہی۔ 1800ء میں جب رائل کالج آف سرجن انگلستان میں قائم ہوا تو یہ عجائب خانہ وہاں منتقل کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے اس کا بیشتر حصہ دوسری عالمگیر جنگ میں جرمن بمباری سے تباہ ہو گیا۔ بچا کھچا ذخیرہ ابھی تک رائل کالج آف سرجنز میں موجود ہے۔

پرتگال سے واپس آ کر وہ علم تشریح کے مطالعہ اور تحقیق میں مصروف رہے ۔ اس زمانہ میں بحیثیت عالم اور سرجن کے انہیں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ 1767 میں ایف آر ایس یعنی مشہور زمانہ رائل سوسائٹی کے فیلو بنائے گئے۔ 1772ء میں انہوں نے اصول اور عمل سرجری پر لیکچر دینا شروع کیے اور سرجری کا ایک نصاب تیار کیا۔
1776ء میں انہیں رائل سوسائٹی کا سب سے بڑا اعزاز کوپلے تمغہ ملا۔ 1773ء میں ان پر دل کا دورہ پڑا اور اس کے بعد ان کی صحت خراب رہنے لگی۔ 16 اکتوبر کو سینٹ جارج ہسپتال کے جلسہ میں تقریر کر رہے تھے کہ دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

تحریر: ارشد اقبال
 

Advertisement