مسلح فوجیوں کی سکیورٹی میں میران شاہ کا دورہ کرنا ایک خواب لگتا ہے ، یہ قصبہ شمالی وزیرستان کا انتظامی مرکز ہے جہاں کبھی دہشتگردوں کا راج تھااور باراک اوباما نے اسے دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دیا تھا۔
لاہور: ( اکانومسٹ ) مسلح فوجیوں کی سکیورٹی میں میران شاہ کا دورہ کرنا ایک خواب لگتا ہے ، یہ قصبہ شمالی وزیرستان کا انتظامی مرکز ہے جہاں کبھی دہشتگردوں کا راج تھا اور باراک اوباما نے اسے دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دیا تھا۔ 22 ماہ کی لڑائی کے بعد دہشتگردوں کو شمالی وزیرستان سے نکال باہر کرنے والی پاک فوج میران شاہ کو ایک تبدیل شدہ مستحکم شہر بنانے کی کوشش میں ہے جس پر انتہا پسندی کی کوئی چھاپ نہ ہو۔ اس لڑائی میں تقریباً 500 فوجی شہید ہوئے ، 3400 کے لگ بھگ جہادی مارے گئے ، باقی سرحد پار افغانستان فرار ہو گئے ۔ جنگ کی علامات ہر طرف دیکھی جا سکتی ہیں، علاقے کے زخم خوردہ شہریوں کو خوشحالی کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ میران شاہ کے گرد نئی سڑکیں دیکھی جا سکتی ہیں، اسی طرح نئی عمارتیں، دکانیں، کلینکس اور سپورٹس سٹیڈیم تعمیر ہو رہے ہیں، شہر سے گزرنے والے دریا کے ساتھ بچوں کی کھیل و تفریح کیلئے ایک گراؤنڈ مکمل ہونے کے قریب ہے جس میں ڈزنی لینڈ کی طرز کے ماڈل دیکھے جا سکتے ہیں۔
فوج پر جانفشانی کیساتھ ایک کمپلیکس کی تعمیر نو بھی کی ہے جس میں ایک بم ساز فیکٹری، فرار کیلئے سرنگیں، اسلحہ خانہ اور خون کے دھبوں سے آلودہ ٹارچر چیمبر شامل ہیں؛ صحن میں افغانستان میں امریکی فوجیوں سے چھینی گئی فوجی گاڑی اور 2 بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ہر طرف ترقیاتی منصوبوں پر جوش و خروش سے کام ہو رہا ہے ۔ فوج سکول بنانا اور نظر انداز کئے گئے دیہات میں بجلی اور پانی پہنچانا چاہتی ہے ۔ سیاحت کو فروغ دینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں مگر بنجر پہاڑوں کے پار قلعوں پر گولہ باری کی بکثرت نشانات یاد دلاتے ہیں کہ زیر زمین بنکر میں بریفنگ کے برعکس میران شاہ کے باہر سکیورٹی ایک انتہائی حساس معاملہ ہے ۔ دورے کے روز میران شاہ سے چند میل دور فوجی گاڑی پر راکٹ حملے میں 2 فوجی شہید جبکہ تین زخمی ہو گئے تھے ۔ مقامی تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سنٹر کے مطابق شمالی وزیرستان سمیت فاٹا میں دہشتگردوں کے ہاتھوں 2016 میں 86 شہری ہلاک ہوئے تھے ، گزشتہ سال یہ تعداد 138 تھی۔
76 فیصد ہلاکتیں نواحی ضلع کرم ایجنسی میں ہوئیں جبکہ شمالی وزیرستان میں حالات کافی بہتر رہے ، جس سے لگتا ہے کہ شمالی وزیرستان سے فرار ہونیوالے بعض دہشتگرد کرم ایجنسی میں ابھی تک سرگرم ہیں۔ پاک فوج کا اصرار ہے کہ وہ اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان مزید کوئی تمیز نہیں کرتی۔ گزشتہ سال نئی فوجی مہم کے دوران فاٹا میں بھی انسداد دہشت گردی کی کوششیں تیز کر دی گئیں، 2017 میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر ملک بھر میں 164 آپریشن ہوئے جس کا نشانہ زیادہ تر تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو بنائے گئے ، اس دوران حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ ان کارروائیوں کے اثرات اور نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ خطے میں دہشت گردی کی مانیٹرنگ کرنیوالی ویب سائٹ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق پاکستان میں دہشت گرد حملوں سے سول ہلاکتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے ، 2013 میں یہ ہلاکتیں 3000 کے لگ بھگ تھیں ، گزشتہ سال 540 ہلاکتیں ہوئی، رواں سال اب تک 24 سول ہلاکتیں ہوئیں، امکان ہے کہ مجموعی طور پر ان میں کمی آئے گی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر دہشت گرد حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں، جس کی مشرقی علاقوں میں تحریک طالبان سمیت پاکستانی دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ چونکہ 2014 میں نیٹو فورسز کا بڑا حصہ افغانستان سے نکل گیا تھا، اس لئے پکتیکا، خوست، ننگرہار اور کنڑ میں گورننس کا کوئی وجود باقی نہیں رہا جس کے باعث دہشتگرد وہاں سے بلا خوف کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کے مطابق ان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ پاکستان میں 143 دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود گروپوں نے کی۔ ان کے بقول بھارتی اور افغان ایجنسیاں ٹی ٹی پی اور داعش کی مدد کر رہی ہیں، ان میں داعش شورش زدہ جنوبی صوبے بلوچستان میں بھی متحرک ہے ۔ سرحد پار سے ہونیوالی دہشت گرد کارروائیوں میں کمی کیلئے فوج پاک افغان سرحد کیساتھ 1500 میل طویل باڑ لگا رہی ہے ۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پہلے مرحلے میں 270 میل کے غیر محفوظ علاقے میں باڑ لگانے کا عمل رواں سال کے آخر تک مکمل کر لیا جائیگا، 55 کروڑ ڈالر کے منصوبے کے باقی حصے پر کام بعد میں شروع کیا جائے گا۔
خار دار تاروں پر مشتمل اس سرحدی باڑ پر پریشر سینسر اور سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہونگے ، ہر میل کے بعد ایک چیک پوسٹ ہو گی جبکہ 443 قلعے بنیں گے ۔ داخلی دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی مہم کا بڑا فائدہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ہو گا، جوکہ ایشیا کے قدیم تجارتی راستے بحال کرنے کے چینی منصوبے کا پاکستانی حصہ ہے ۔ چین پاکستان کے انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن کیلئے 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ؛ نئی سڑکیں، ریلویز، پاور سٹیشن اور بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ اسی چینی منصوبے کا حصہ ہیں جوکہ مغربی چین کو بحیرہ عرب کیساتھ جوڑے گا۔ یہ منصوبہ اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 20 فیصد جبکہ معاشی شرح نمو میں تین فیصد اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
سکیورٹی صورتحال کو جب تک بہتر نہیں بنایا جاتا ، یہ تصور کرنا محال ہے کہ چین اپنے منصوبے جاری رکھے گا، عالمی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے ۔ سی پیک منصوبے کے دونوں کونوں پر آزاد کشمیر اور بلوچستان واقع ہیں۔ گزشتہ سال بلوچ علیحدگی پسندوں نے گوادر پورٹ پر کام کرنے والے 10 مزدور ہلاک کر دیئے تھے ۔ چین کے ایما پر ان تما م شاہراہوں کی مانیٹرنگ کیلئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کے منصوبے کی باتیں ہو رہی ہیں جوکہ سی پیک کا حصہ ہیں۔ اعلیٰ فوجی قیادت جانتی ہے کہ ملک اور فوج دونوں کیلئے سی پیک منصوبہ کس قدر نئے تجارتی مواقع پیدا کرے گا۔ صدر ٹرمپ کے ناراضگی پر مبنی ٹویٹس کے برعکس یہ مواقع پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں کہیں زیادہ پرعزم بنا سکتے ہیں۔