فیض حمید کی سزا‘ بعد کا منظر نامہ

Published On 18 December,2025 12:34 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے، ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

اس کا اندازہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس اور بعد کی صورتحال سے بھی لگایا جا سکتا ہے، آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ 12 اگست 2024ء کو سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز ہوا جو 15 ماہ تک جاری رہا، ان پر چار الزامات عائد کئے گئے تھے جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں جو ریاست کی سلامتی اور مفادات کیلئے نقصان دہ ہیں، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو بلا جواز نقصان پہنچانے کے الزامات شامل ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ طویل اور جامع قانونی کارروائی کے بعد ملزم کو تمام الزامات میں قصور وار قرار دیتے ہوئے 11 دسمبر 2025 ء کو 14 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے، واضح کیا گیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا، ملزم کو تمام قانونی حقوق فراہم کئے گئے، ان حقوق میں اپنی مرضی کی قانونی ٹیم مقرر کرنے کا بھی حق حاصل تھا اور کہا گیا کہ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں کہا گیا کہ مجرم کے سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے دانستہ طور پر سیاسی اشتعال انگیزی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے سمیت بعض دیگر معاملات میں مجرم کے ملوث ہونے کے معاملے سے علیحدہ طور پر نمٹا جا رہا ہے۔

پا ک فوج کی جانب سے اپنے اعلیٰ ترین افسر کے خلاف کارروائی نے خود احتسابی کی ایک نئی مثال قائم کی، فوج کا خود احتسابی کا نظام ایک جامع اور مضبوط نظام ہے جو خالصتاً ٹھوس شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے، اگرچہ پاک فوج میں کورٹ مارشل اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں مگر ایسی اہم ترین پوزیشن پر رہنے والے افسر کے خلاف کارروائی نے سب کو حیران کر دیا،اس سزا کے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیے کا آخری پیراگراف نہ صرف انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ آنے والے منظر نامے سے متعلق بھی آگاہ کر رہا ہے، کچھ حلقوں میں یہ بحث بھی ہوئی کہ آئی ایس پی آر کے حالیہ اعلامیے میں 9 مئی کی سازش میں ملوث ہونے کا ذکر نہیں ہے اور صرف سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کا ذکر ہے اور ادارے کی بجائے صرف حکومتی وزرا 9 مئی میں ملوث ہونے کی تشریح کر رہے ہیں، مگر گزشتہ برس دسمبر میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی سے متعلق جاری ہونے والی پریس ریلیز میں واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ ان الزامات میں 9 مئی بھی شامل ہے۔

10 دسمبر 2024 ء کو آئی ایس پی آر نے اپنے اعلامیے میں بتایا تھا کہ فیض حمید پر لگنے والے چار الزامات کے علاوہ اشتعال اور بدامنی پیدا کرنے سے متعلق واقعات میں ملوث ہونے کی الگ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں متعدد واقعات پیش آئے جن میں 9 مئی کا واقعہ بھی شامل ہے جس کا مقصد مخصوص سیاسی مفادات کے ایما پر اور ان کے ساتھ ملی بھگت سے عدم استحکام پیدا کرنا تھا، یعنی ریاست کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں کہ 9 مئی سمیت ملک میں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سیاسی ہیجان پیدا کرنے میں مبینہ طور پر فیض حمید کا ہاتھ تھا۔،یہ بھی سوال اٹھا کہ ابھی 14 برس کی جو سزا سنائی گئی ہے اسی کے ساتھ سیاسی انتشار اور سازش کے معاملات کو کیوں نہیں نمٹایا گیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ 15 ماہ کے دوران تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے چار الزمات سے متعلق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کو سمیٹتے ہوئے اسے پہلے نمٹانا اس لئے ضروری تھا کیونکہ 9 مئی جیسے واقعات میں تحقیقات اور کارروائی کا دائرہ کار دیگر افراد تک وسیع ہوتا دکھائی دے رہا ہے، ریاست کے خلاف ہونے والی سازش میں سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے نام بھی شامل ہیں۔

فیض حمید کے خلاف شروع ہونے والی کاروائی کا پس منظر یہ ہے کہ 2024ء کے اوائل میں سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے خلاف درخواست موصول ہوئی اور سپریم کورٹ ہی کی ہدایت پر وزارت دفاع کے ذریعے اپریل 2024ء میں پاک فوج کی جانب سے اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری کو اس کیس کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا، جب اس کورٹ آف انکوائری نے شواہد اکٹھے کر لئے تو اس کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی جائے۔

پاک فوج کے افسر پر ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک جبکہ حساس ادارے کے افسر پر پانچ سال تک کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر قانونی پابندی ہوتی ہے مگر اداروں کو ثبوت ملے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ایسے اشارے بھی ملنا شروع ہوئے کہ نہ صرف وہ ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش میں بھی ملوث ہیں۔

ابھی جن الزامات پر سابق لیفٹیننٹ جنرل کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے وہ فوج کے ڈسپلن سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں مگر جو کیس انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے سے متعلق ہے اس کی سزائیں زیادہ سنگین ہیں، اگرچہ 9 مئی واقعے سے متعلق متعدد کیسز میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں مگر جن کیسز میں بانی پی ٹی آئی نامزد ہیں ان کی کارروائی ابھی جاری ہے۔

بانی پی ٹی آئی راولپنڈی کے 9 مئی سے متعلق ایک درجن کیسز میں نامزد ہیں جن میں جی ایچ کیو حملہ کیس بھی شامل ہے، اس کیس میں گواہان کی شہادتیں ریکارڈ کرنے کا عمل آخری مرحلے میں ہے، فیض حمید کے خلاف بد امنی اور انتشار سے متعلق الزامات سچ ثابت ہوئے تو اس مقدمے میں تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہوگا، آنے والے دنوں میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی لیڈرشپ کیلئے مشکلات مزید بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔