بلاول بھٹو اپنے فیصلوں میں کتنے آزاد؟

Last Updated On 03 August,2018 09:00 am

لاہور: (تجزیہ: خاور گھمن) اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان بلاول بھٹو زرداری نے ا نتہائی موثر انتخابی مہم چلائی۔ شائستہ زبان میں پارٹی کا منشور لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی، سیاسی مخالفین پر تنقید کی بھی تو اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر مہم کے دوران خطرات کے باوجود بلاول بھٹو دلیری کیساتھ عوام میں گئے اور تقریروں کے دوران ان میں کچھ حد تک ہی سہی اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر شہید کی جھلک ضرورنظر آئی۔

بلاول پنجاب میں نکلے تو جیالوں نے بھی ان کی آواز پر لبیک کہا۔ 2013 میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 2 نشستیں اس بار بڑھ کر 6 ہو گئیں اور صوبائی اسمبلی میں بھی چھکا مارنے میں کامیاب رہے۔ مجمو عی طور پر قومی اسمبلی کی نشستیں پانچ سا ل بعد 29 سے بڑھ کر 43 تک اور سندھ میں 65 سے 75 تک پہنچ گئیں۔ بلاول بھٹو کی اپنے پہلے الیکشن میں ہی کارکردگی قابل فخر نہ سہی تو قابل تعریف ضرور ہے۔ اس کے باوجود جیالے ہوں، تجزیہ کار یا عوام سب کے لیے ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ نوجوان بلاول بھٹو پارٹی فیصلوں میں کس حد تک آزاد ہیں؟

بلاول کے والد آصف علی زرداری اور پھوپھی فریال تا لپور ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں؟ بلاول جیالوں کی خواہشات کے مطابق پیپلزپارٹی کی سیاست آگے بڑھا سکیں گے یا نہیں ؟ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے دو اہم رہنمائوں سے بات ہوئی تو وہ بھی دبے الفاظ میں اپنا دکھڑا سناتے دکھائی دئیے۔ ان کا کہناتھا کہ بلاول بھٹو نے وقت کیساتھ اپنی سیاسی بصیرت سے ہر ایک کو متاثر کیا ہے وہ پارٹی آئیڈیالوجی کے ساتھ آگے بڑھنا اور عوام میں اپنا صاف امیج بنانا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کرپشن کے بھی سخت خلاف ہیں لیکن پارٹی کے اندر اب بھی طوطی آصف علی زرداری کا ہی بولتا ہے۔

ایک پارٹی لیڈر کے مطابق بلاول بھٹو نے ماضی میں مختلف ایشوز پر اپنے والد سے اختلاف کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی بات کو سنی ان سنی کر دیا گیا، موجودہ انتخابات میں پارٹی کے بہتر نتائج کے بعد حالات بہتر ہو چکے ہیں، بلاول بھٹو کی موثر الیکشن مہم اور پارلیمنٹ میں آنے کے بعد پارٹی میں ان کی سیاسی حیثیت یکسر تبدیل ہو ئی ہے اور ان کی رائے کو اب بھرپور اہمیت دی جا رہی ہے ۔

پیپلز پارٹی رہنما نے مثال دیتے ہوئے کہا، بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے اور تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اسے مرکز میں حکومت بنانے دی جائے یہی نہیں مسلم لیگ نون اور دوسری شکست خوردہ پارٹیوں کی مزاحمتی سیاست سے بھی دور رہا جائے۔ پارٹی ان کے موقف کو لیکر آگے بڑھ رہی ہے۔

الیکشن مہم کی طرح بلاول اصولوں پر مبنی سیاسی فیصلے کر کے پارٹی میں مزید جان ڈال سکتے ہیں لیکن کئی مجبوریاں بلاول بھٹو کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، آصف زرداری اور فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر نیب ریفرنسز کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان تمام چیلنجز کو اگر سامنے رکھیں تو یقینی طور پر آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کی موجودہ حیثیت کو اپنے ساتھیوں کے بچائو کے لیے ضرور ا ستعمال کریں گے جس سے بلاول بھٹو کی مستقبل کی سیاست کو نقصان پہنچنے کا بڑا خدشہ ہے۔

بلاول بھٹو لاڑکانہ کی آبائی نشست سے انتخاب جیتنے کے بعد اب قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں اور ایسے میں ملک کے تمام سنجیدہ حلقے ان سے توقع کرتے ہیں کہ ان کی توجہ موثر قانون سازی کیساتھ سندھ میں ایک مثالی حکومت کے قیام پر مرکوز رہے گی۔ ایسی صوبائی حکومت جو سندھ کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کر سکے اور ہر سطح پر گڈ گورننس کو یقینی بنائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو 2023 میں بلاول بھٹو کو اس ملک کے مقبول ترین لیڈروں کی صف میں کھڑا کر سکتا ہے اور ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی پنجاب میں بھی ان کی پارٹی ایک بار پھر بڑی سیاسی قوت بن سکتی ہے۔

اگر بلاول مستقبل کا نقشہ ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سندھ اور وفاق میں آزادانہ فیصلوں کے لیے اپنی جان انکلز اور آنٹیوں سے بھی بروقت چھڑانا ہو گی۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجیے کہ اگر بلاول بھٹو بھرپور سیاسی اننگز کھیلنے میں ناکام ہوئے اور عمران خان اپنے وعدوں پر 50فیصد بھی عمل کر پائے تو پیپلزپار ٹی کی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔