لاہور: (مسعود ابدالی) یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ تیل کی تلاش کا کام صبر، مستقل مزاجی اور حوصلے کا متقاضی ہے۔ یہاں ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی، نہ یہ تبدیلی قلب کا آپریشن ہے کہ مریض کے ہوش میں آنے پر کامیابی کا اعلان کر دیا جائے اور اگر مریض جانبر نہ ہو تو آپریشن ناکام ٹھہرے۔ تیل و گیس کی تلاش کے کام کو آسان زبان میں اس طرح سمجھ لیں کہ ہزاروں میٹر گہرائی میں تیل و گیس سے لتھڑا اسفنج کا ایک بہت بڑا ٹکڑا مٹی اور چٹانوں کی تہوں میں دبا پڑا ہے جس کی تلاش جوئے شیر لانے سے کم نہیں، اکثر ایسا ہوا کہ ذخیرے تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ خزانے کے سر پر کوئی سائبان نہیں اور جب جھولی میں چھید ہوں تو وہاں قارون کا خزانہ بھی نہیں ٹک پاتا۔ کبھی ذخیرہ ملا تو اس کا ظرف اتنا چھوٹا کہ پیاس بجھنا تو دور کی بات داڑھ بھی گیلی نہیں ہوسکتی۔
تیل و گیس کے ذخیرے کے سر پر غیر نفوذ پذیر چٹان کی موجودگی کیلئے جدید اور آزمائے ہوئے طریقے استعمال ہوتے ہیں لیکن Seismic اور دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات دوٹوک اور شفاف نہیں ہوتیں، بالکل درست معلومات کنواں کھود کر ہی حاصل ہوتی ہیں۔ کیکڑا کے حتمی نتائج کا ہمیں علم نہیں بلکہ یہ شائد ای این آئی کو بھی معلوم نہ ہو کہ ٹیسٹ اور اس کا تجزیہ ابھی جاری ہے لیکن جو ابتدائی معلومات میڈیا پر آئی ہیں اس کے مطابق اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں کہ یہاں منبع موجود ہے، یہاں ذخیرہ کرنے والی چونے کے پتھر کی مسامدار چٹانیں بھی موجود ہیں۔ یہ مسام ملے ہوئے ہیں اس لئے ان میں موجود تیل و گیس کو حرکت میں لانا مشکل نہیں، غیر مسامدار چٹانوں نے ذخیرے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
یہ معلومات ملی ہیں کہ ذخیرے کے اوپر کے حصے میں گیس کے آثار ہیں جس کے نیچے پانی ہے، یعنی بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ گیس سے بھری چٹان کی موٹائی اتنی نہیں کہ یہاں سے تجارتی بنیادوں پر گیس نکالی جاسکے۔ بلاشبہ اسے آپ ناکامی کہہ سکتے ہیں جس کا ملک دشمن میڈیا ‘کھودا پہاڑ نکلا چوہا’ کہہ کر مذاق اڑا رہا ہے لیکن ارضیات کے طلبہ کیلئے یہ نتائج کسی بھی اعتبار سے مایوس کن نہیں۔ چند برس پہلے شیل نے کیکڑا کے جنوب میں ایک کنواں کھودا تھا جہاں نہ Cap Rock کا کوئی سراغ ملا اور نہ مسامدار چٹانوں کی موجود گی کا احساس ہوا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کیکڑا سے ملنے والی معلومات نے امیدو اعتماد کی نئی شمع روشن کی ہے جس کی روشنی میں نئے کنویں کیلئے جگہ کا تعین زیادہ باوثوق انداز میں کیا جاسکے گا۔ اب ماہرین کو زیر زمین پانی کے پھیلاؤ اور ان گیلی چٹانوں کی ڈھلان کا اندازہ کرنا ہے تاکہ نیا سوراخ وہاں کیا جائے جہاں گیس سے بھری چٹانوں کی موٹائی زیادہ ہو۔
کیکڑا کسی بھی اعتبار سے ناکامی نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کروڑوں ڈالر خرچ کر کے جو قیمتی معلومات حاصل ہوئی ہیں انہیں مایوسی کی دیمک کا رزق بنانے کے بجائے ان کی بنیاد پر نئے کنویں کی تیاری شروع کر دی جائے۔ جو لوگ رقم ڈوبنے کا ماتم کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تیل کی تلاش کیلئے گہری جیب، مضبوط دل اور آہنی اعصاب بنیادی جزو ہیں۔ یہ چھوٹے دل اور ذرا سی مشکل پر ہتھیار رکھ دینے والوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ ان بہادروں کا کام ہے جو ناکامیوں کو پیروں تلے مسل کر نیا راستہ بنانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اس بات میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی سمندر کی تہوں میں تیل و گیس کا ایک سمندر موجزن ہے اور انشااللہ ایک دن یہ ضرور دریافت ہوگا۔ وسائل و قابلیت اور ہنرمند افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں، بس حوصلہ مند، مخلص اور بے خوف تکنیکی اور سیاسی قیادت درکار ہے۔