لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال پر پابندی لگا دی۔ جسٹس جواد حسن نے کہا ہڑتال کی صورت پر توہین عدالت کی کارروائی میں جیل جائیں گے، ڈاکٹرز یونیفارم میں عدالت نہیں ہسپتال ہونے چاہئیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے ایڈوکیٹ اظہر صدیق کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں پنجاب حکومت سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث مریضوں کو پریشانی کا سامنا ہے، دور دراز سے آئے مریض رل رہے ہیں۔
عدالتی حکم پر ینگ ڈاکٹرز کی قیادت عدالت میں پیش ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس جواد حسن کی جانب سے ریمارکس دئیے کہ ابھی تو آرڈیننس آیا ہے، قانون توبنا ہی نہیں پھرہڑتال کیوں کی گئی، پروفیشنلز نے معاشرے کو اپنی خدمات دینا ہوتی ہیں، عدالت اپنے فیصلے میں ہڑتال کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گی جس پر ینگ ڈاکٹرز کے وکیل نے کہا کہ ہم اچھا تاثر دینے کے لئے ہڑتال ختم کر رہے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے آرڈننس سے متعلق سیکرٹری صحت کو تمام سٹیک ہولڈر کے ساتھ مشاورت کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز سمیت تمام کے ساتھ ورکشاپ بھی کریں۔ ینگ ڈاکٹرز نے عدالت میں یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور عدالتوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ یہ ہیلتھ سیکرٹری کا قصور ہے کہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہے جب تک تمام اسٹیک ہولڈر نہیں بیٹھتے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
جسٹس جواد حسن نے ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال ختم کر کے فریقین سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔ جسٹس جواد حسن نے کہا قانون سازی ہونے تک ہڑتال بلا جواز ہے، نیا ڈرافٹ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنایا جائے، پہلے ہی کہہ چکے پروفیشنلز ہڑتال نہیں کرسکتے، آئین کے تحت ڈاکٹرز کی ہڑتال جائز نہیں، ڈاکٹرز نے ہڑتال ختم نہ کی تو اچھا نہیں ہوگا۔ پیشی کے موقع پر ڈاکٹرز کی بڑی تعداد لاہور ہائیکورٹ میں موجود تھی۔