اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس میں چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم بھی دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں لارجر بنچ نےکیس کی سماعت کی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار بنچ میں شامل ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ یہ قابل اعتراض ریمارکس کب دیے گئے ہیں؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ 20 اگست کو عمران خان نے ایف نائن پارک میں یہ ریمارکس دیے۔ عمران خان نے کہا زیبا صاحبہ آپ کو شرم آنی چاہیے ہم آپ کے خلاف بھی ایکشن لیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ وہ کونسا کیس سن رہی تھیں جس پر یہ ریمارکس دیے گئے؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج شہباز گِل سے متعلق کیس سن رہی تھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبا د نے کہا کہ عمران خان مسلسل اداروں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، کسی بھی جماعت کو اب اداروں کے خلاف بیانات سے روکا جانا چاہیے، عمران خان نے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ زیرالتواء کیس میں کوئی ریمارکس کس طرح دے سکتا ہے؟ یہ آپکا معاملہ نہیں ہے یہ عدالت اور ملزم کے درمیان ہے۔ہماری عدلیہ کی تضحیک کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہی ماحول بنانا ہے تو ملک میں کام تو ہو گا ہی نہیں۔عوام کی امید عدالتیں ہیں وہ بھی کام چھوڑ دیں تو کیسے چلے گا۔جو بھی عدالت کسی کے خلاف فیصلہ دے گی اسکے خلاف بیانات دینا شروع کر دینگے؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اٹھیں اور خود اپنا انصاف کرنا شروع کر دیں؟ وزیر اعظم رہنے والے لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ خاتون جج کا نام لے کر اس طرح کی گفتگو کی گئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ کیس میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں تو سوال کا جواب دیں۔کیا عمران خان کو نوٹس جاری کیا جائے یا شوکاز نوٹس ہونا چاہیے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہاکہ بادی النظر میں یہ کیس شوکاز نوٹس کا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے قرار دیا کہ قانون کے مطابق اس کیس میں شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔اس قسم کے بیانات کے اثرات کو دیکھنا ہے۔بہت سے لوگ کھڑے ہوں تو تقاریر میں ایسے بات کرنی چاہیے؟ جلسے میں جتنے بھی لوگ ہیں میڈیا کے توسط سے پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کو پتہ ہے کہ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو اس پر بہت کچھ ہو رہا ہو گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمے میں کہا کہآپکی حکومت ہے آپ کریں نا کیوں نہیں کر رہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ اگر پارٹی لیڈر اس طرح کی بات کر رہا ہے تو نچلے درجے پر بھی یہی ہو گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ماتحت عدلیہ تو وہی فیصلے کرتی ہے جس پر اعلیٰ عدلیہ فیصلے دیتی ہے۔سول بیوروکریسی اور آئی جی کو دھمکی دے رہے ہیںکیا یہ حکومت چلی جائے گی دوسری آئے گی تو یہ ایسے بیان شروع کر دینگے؟
انہوں نے کہا ہے کہ یہاں تو مخصوص لوگوں نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔یہ کیس بنتا تو شوکاز نوٹس کا ہی ہے،معاملے کو ایک ہی بار طے ہو جانا چاہیے۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے عمران خان کو 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔