لاہور: (فرخ احمد ) پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی خود کو حکومت میں ہی محفوظ سمجھتی ہے، جیسے ہی کوئی پارٹی حکومت ختم ہونے کے بعد اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھتی ہے تو وہ حکومت میں آنے والی پارٹی کے خلاف سیاسی انتقام کا بیانیہ اپنا لیتی ہے۔
ملک میں اس وقت بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے، حکومتی بینچ چھوڑنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو موجودہ حکومت کی جانب سے سنگین نوعیت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پہلے شہباز گل پر بھی اس قسم کا مقدمہ دائر کیا گیا، اس کے بعد اعظم سواتی کو اداروں کے خلاف بیان بازی کرنے پر مقدمے میں گرفتار کیا ، اب سابق وفاقی وزراء فواد چودھری اور شیخ رشید کو بھی چند روز قبل ہی صرف بیان بازی پر گرفتار کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر چیئرمین عمران خان نے کئی موقعوں پر مذمت کی اور کہا کہ وفاقی حکومت سیاسی انتقام میں اندھی ہو چکی ہے، ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے، ہم بنانا ری پبلک میں رہ رہے ہیں، سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی نے بھی مقدمات کے حوالے سے کئی موقعوں پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا کی ہر سازش ناکام ہو گی، وفاقی حکومت اقتدار کے لالچ میں بدترین انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔
ایک موقع پر تحریک انصاف کے گورنر چودھری سرور نے کہا تھا کہ حکومت سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا، جہاں بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی وہاں سخت ایکشن لیا جائیگا، حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین وقانون کی حکمرانی یقینی بنائے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت میں ہونے والی گرفتاریوں کو احتساب کا نام دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست میں کبھی انتقامی کارروائی کی اور نہ یقین رکھتے ہیں، 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں پہلی بار عمران خان کی پارٹی نے ملک بھر سے سیٹیں جیت کر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تھی جس کے بعد تحریک انصاف نے عمران خان کو اپنا متفقہ وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیا، 17 اگست 2018ء کو ایوان میں ووٹنگ کے بعد عمران خان پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے، انہوں نے اپوزیشن کے مقابلے میں 176 ووٹ حاصل کیے تھے، 18 اگست کو عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد بطور وزیر اعظم احتساب کا بیڑا اٹھایا، عمران خان احتساب کے حوالے سے چین، سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کی بھی مثالیں دیا کرتے تھے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت میں ہی ان کا نام عالمی طور پر سامنے آنے والے پانامہ سکینڈل میں آیا جس کے کیس کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑا، پانامہ کیس میں ہی نواز شریف، مریم نواز اور ان کے دونوں بیٹوں کے خلاف 8 ستمبر 2017 کو ایون فیلڈ کا عبوری ریفرنس دائر کیا گیا اس ریفرنس کا تقریباً 9 ماہ تک ٹرائل جاری رہنے کے بعد فیصلہ ہوا، فیصلے میں نواز شریف کو 11 سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ، ان کی بیٹی مریم نواز کو 8 سال قید اور 20 لاکھ پاؤنڈ جبکہ کیپٹن صفدر کو 1 سال کی قید سنائی گئی تھی، مسلم لیگ (ن) کے قائد کو سزا ہونے کے بعد پاکستان کے سیاسی ماحول میں نئی کشیدگی نے جنم لیا، نواز شریف جس دوران جیل میں تھے تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے کچھ ایسے بیانات دیئے جس کے وجہ سے مسلم لیگ (ن) میں سیاسی انتقام کی فضا مزید پروان چڑھی، ایک موقع پر امریکا میں خطاب کے دوران عمران خان نے کہا تھا کہ میں واپس جا کر نواز شریف کی جیل سے اے سی اور پنکھے اتروا دوں گا۔
5 اکتوبر 2018ء کو آشیانہ سکینڈل میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد 22 دسمبر 2018ء میں شہباز شریف کیخلاف آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں ضمنی ریفرنس دائر کیا گیا جس میں احد چیمہ، فواد حسن فواد سمیت 13 لوگوں کو نامزد کیا گیا، شہباز شریف کی گرفتار کے بعد عمران خان کی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
11 دسمبر 2018ء کو خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کو پیراگون سٹی کے کیس میں گرفتار کیا گیا جبکہ یکم جولائی 2019 کو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو بھی منشیات سمگلنگ کے کیس میں حراست میں لیا اور وہ 24 دسمبر 2019 تک جیل میں رہے ان کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا گیا، ان میں نہال ہاشمی اور جاوید لطیف کو اداروں کیخلاف بیان دینے، حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کے کیس اور ایم این اے چودھری اشرف کو قبضے کے کیس میں گرفتار کیا گیا، مسلم لیگ (ن) لاہور کے موجودہ صدر سیف الملوک کھوکھر کا جوہر ٹاؤن میں گھر کا حصہ بھی گرایا گیا، ان کے علاوہ مزید اہم رہنماؤں کے خلاف بھی مختلف کارروائیاں کی گئیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے صرف مسلم لیگ (ن) کو نشانے پر نہیں رکھا بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی عمران خان کی احتساب پالیسی سے نہ بچ سکے، 10 جون 2019 کو سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف کو بھی مختلف کیسوں کا سامنا رہا۔
10 اپریل 2022ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پرانی پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے، دونوں پارٹیاں تحریک انصاف کو دبانے کیلئے مختلف حربے آزما رہی ہیں، اہم رہنماؤں کو بولنے سے روکنے کیلئے ان پر مختلف نوعیت کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد سب سے پہلے شہباز گل کیخلاف اداروں کے خلاف بولنے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، ان کے ساتھ تفتیش کے دوران نامناسب سلوک کی شکایت بھی سامنے آئی، ان کے بعد اعظم سواتی پر حساس ادارے کے سربراہ کے خلاف ٹویٹ کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا، اسی طرح سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کو الیکشن کمیشن کے حکام کے خلاف بیان دینے پر گرفتار کیا گیا جبکہ گزشتہ روز عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو بھی ٹی وی پر بیان دینے پر مقدمہ درج کر کے حراست میں لے کر انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا، تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے ان تمام گرفتاریوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی گئی ہے اور ایسے اقدامات کو حکومت کی انتقامی کارروائیاں قرار دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے گرفتاریوں کے حوالے سے عمران خان کی حکومت کیخلاف سیاسی انتقام کا بیانیہ بناتی تھیں وہ ان کی حکومت میں ہونے والی کارروائیوں کو نیب نیازی گٹھ جوڑ بھی قرار دیا کرتی تھیں لیکن خود حکومت میں آنے کے بعد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو دوبارہ دہرا رہی ہیں۔