اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کے پلان پر حکومت کی جانب سے کئی یوٹرنز لئے گئے مگر اب بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے، حکومت نے آئینی ترمیم کیلئے پارلیمان میں نمبر گیم مکمل کر لی ہے۔
پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کے ہدف کے حصول کا مقصد فی الوقت تو عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم لانا ہی ہے اور حکومت کو یہ ہدف مولانا فضل الرحمان کی مشروط حمایت کے بعد حاصل ہوا ہے جس کے ساتھ ہی حکومت نے آئین میں ترمیم کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کر لیا ہے۔
اس سے قبل وزیر قانون اور وزیر اطلا عات و نشریات ان آئینی ترامیم سے متعلق خبروں کی واضح تردید کرتے رہے ہیں مگر اب حکومت کی جانب سے معاملے کی تردید کی بجائے معنی خیز خاموشی اختیار کر لی گئی ہے، پیر کے روز ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں حکومتی اراکین کے اعزاز میں عشائیے دیئے گئے جن میں حکومت نے اپنے اراکین کو ان ترامیم سے متعلق پلان پر اعتماد میں لیا، ان عشائیوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رواں سیشن میں ہی آئینی ترمیم کا بل منظوری کیلئے پیش کر دیا جائے گا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومت یہ کام گزشتہ ہفتے ہی کرنا چاہتی تھی مگر اس کے پاس نمبرز پورے نہیں تھے، کافی تگ و دو کے بعد حکومت اپوزیشن کی جانب جھکاؤ بڑھاتے نظر آنے والے مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملانے میں مشروط طور پر کامیاب تو ہوگئی ہے مگر اس آئینی ترامیم میں ساتھ دینے کیلئے مولانا فضل الرحمان کی جانب سے شرائط رکھی گئیں ہیں کہ پہلے جے یو آئی ف کو خیبر پختونخوا کی گورنر شپ اور دو وزارتیں دی جائیں۔
مولانا فضل الرحمان کے بغیر حکومت آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر قومی اسمبلی میں تو دو تہائی اکثریت پوری کر سکتی ہے مگر سینیٹ آف پاکستان میں مولانا کے بغیر دو تہائی اکثریت کا حصول ممکن نہیں، اگر قومی اسمبلی کی بات کی جائے تو پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پاس 111 ارکان ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 ، ایم کیو ایم کے 22، مسلم لیگ(ق) کے پاس پانچ اور استحکام پاکستان پارٹی کے پاس چار اراکین ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور پی ایم ایل ضیا کے پاس ایک ایک نشست ہے۔
یوں کل ملا کر حکومتی اتحاد کا نمبر 213 بنتا ہے جبکہ ایوان میں دو تہائی اکثریت کیلئے اسے 224 ارکان در کار ہیں، مولانا فضل الرحمان کے آٹھ ارکان مل جائیں تو یہ نمبر 221 تک پہنچ جائے گا، حکومتی ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے چار سے زائد ارکان بھی آئینی ترمیم کیلئے حکومت کا ساتھ دینے کی یقین دہائی کروا چکے ہیں جن کا تعلق تو تحریک انصاف سے ہے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث تاحال ان کا سٹیٹس آزاد رکن کا ہے۔
بل کی منظوری کیلئے زیادہ کٹھن مسئلہ سینیٹ میں درپیش ہے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 24 اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس 19 نشستیں ہیں، آزاد اراکین کی تعداد چار ہے جبکہ ایم کیو ایم اور اے این پی کے پاس تین تین نشستیں ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کی نشستوں کی تعداد پانچ اور نیشنل پارٹی کے پاس ایک نشست ہے، یوں حکومتی اتحادی ارکان کی مجموعی تعداد 59بنتی ہے، دو تہائی اکثریت کیلئے درکار 64کے ہدف کو چھونے کیلئے مولانا کے پانچ اراکین کی حمایت کا حاصل ہونا ضروری ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کا جو ابتدائی مسودہ تیار کیا گیا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 179 سے متعلق ہے، آرٹیکل 175 اے(3) کے مطابق صدر مملکت کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج کو ہی چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کرنا لازم ہے، حکومت ہائیکورٹ کی طرز پر ایسی ترمیم چاہتی ہے کہ سینئر ترین جج کی بجائے ججز کے پینل میں سے کسی بھی جج کو چیف جسٹس آف پاکستان بنایا جا سکے۔
آرٹیکل 179 کے مطابق عدالت عظمیٰ کا کوئی جج 65 سال کی عمر کو پہنچنے تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، ان دونوں آرٹیکلز میں اگر ترمیم ہوتی ہے تو نہ صرف تمام جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 65 سال سے بڑھ کر 68 سال ہو جائے گی بلکہ حکومت سینئر ترین جج کو چیف جسٹس آف پاکستان بنانے کی پابند بھی نہیں رہے گی، نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے بیان اور ان کی وضاحت نے بھی دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے عدالتی سال کی تقریب کے بعد چیف جسٹس کی صحافیوں کے ساتھ گفتگو کو غلط انداز میں رپورٹ کیا گیا، وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دراصل کہا تھا کہ کئی ماہ قبل وزیر قانون نے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور بتایا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی مدت کو تین سال کیلئے مقرر کرنا چاہتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ کسی ایک فرد کیلئے ہے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔
اس سے ایک روز قبل میڈیا نے چیف جسٹس آف پاکستان سے منسوب بیان رپورٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع کو قبول نہیں کریں گے، دوسری طرف ناقدین اس وضاحتی بیان پر تبصرہ کچھ اس انداز میں کر رہے ہیں کہ اگر کوئی ترمیم فردِ واحد کیلئے قابل قبول نہیں تو کیا جو ترمیم حکومت کرنے جا رہی ہے وہ اگر سب کیلئے ہے تو کیا وہ قابلِ قبول ہے؟ اس معاملے کو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے قابل قبول قرار دینے یا نہ دینے سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان یعنی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اسے قبول کریں گے یا نہیں۔
اس وقت ان کا کردار اس لئے اہم ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت تین رکنی کمیٹی میں دونوں جج صاحبان شامل ہیں، حکومت اگر آئینی ترامیم کر بھی لیتی ہے تو سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے کی صورت میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی رائے بہت اہمیت کی حامل اور قابلِ عمل ہے۔
نئے عدالتی سال کے موقع پر یہ دونوں شخصیات فل کورٹ تقریب میں موجود نہیں تھیں، جسٹس منصور علی شاہ اب سے چند ہفتے قبل ہی یہ اہم پیغام دے چکے ہیں کہ عدالتی فیصلوں پر ہر صورت عمل کرنا ہوگا اور اس وقت تمام نظریں اس لئے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان پر ہیں کہ مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلے میں کیا ہوگا۔
حکومت تو یہ طے کر چکی ہے کہ 25 اکتوبر کو ہونے والی تبدیلی کے معاملے پر اس نے اپنے پلان کے مطابق جانا ہے مگر اصل فیصلہ عدلیہ کا ردعمل ہی کرے گا، آنے والے دنوں میں معاملات خوش اسلوبی اور اتفاق رائے سے طے پانے کی بجائے ایک نئے بڑے ٹکراؤ کو جنم دیتے نظر آ رہے ہیں۔