لاہور: (اختر سردار چودھری) پاکستان سمیت دنیا بھر میں زبان میں آج ہکلاہٹ یا لکنت (Stuttering) لکنت سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کے منانے کا مقصد عوام کو زبان کی لکنت یا ہکلاہٹ کے شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت تقریباً سات کروڑ افراد لکنت یا ہکلاہٹ کا شکار ہیں، یہ مرض پیدائشی بھی ہو سکتا ہے اور بعض نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے، بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں ہکلانے لگتے ہیں تاہم یہ صورتحال جزوی ہو سکتی ہے۔
لکنت یا ہکلاہٹ کے عالمی دن کے موقع پر مختلف نجی و طبی اداروں کے زیر اہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے معاشرتی سطح پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے کہ یہ مرض نہیں ہے لیکن فرض کریں یہ مرض ہے تو بھی اس مریض کودوسروں کی جانب سے مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جو اُن کیلئے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔
زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایک ایسا مرض ہے جس کی عموماً کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی، ہکلاہٹ اتنا عام مرض نہیں لیکن اس کے شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دُہراتے ہیں، ایک حرف پر اڑ جاتے ہیں، وہ حرف ادا نہیں ہو پاتا تو زور لگاتے ہیں، لکنت کا مریض کسی لفظ میں موجود ایک حرف ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں، ماہرین کے مطابق اس مرض کی تین اقسام ہیں:
ڈویلپمنٹل، نیوروجینک اور سائیکو جینک۔
پہلی قسم ہکلاہٹ کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ تر بچوں میں اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولنا سیکھتے ہیں، اس کا علاج اس وقت بچوں کی مدد کر کے کیا جا سکتا ہے بجائے اس کے کہ بچے کا مذاق اڑایا جائے۔
دوسری قسم نیورو جینک ہے جس کا تعلق بولنے میں مدد دینے والے خلیات کی خرابی سے ہے، اس کا علاج ماہر یا ڈاکٹر کی زیر نگرانی ہونا چاہیے۔
تیسری قسم سائیکو جینک ہے جو مختلف دماغی یا نفسیاتی امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے یعنی یہ مرض پیدائشی بھی ہو سکتا ہے اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے، نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے، جس وجہ سے وہ اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کا علاج کیا ہے؟
سب سے پہلے تو مریض کے اندر خود اعتمادی کا پیدا ہونا لازم ہے اس کیلئے اسے اس کی آگاہی فراہم کی جائے کہ دنیا میں لوگ کس کس طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں اس کے بعد مریض کے اندر یہ اعتماد و یقین پیدا کیا جائے کہ یہ مرض قابل علاج ہے، جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔
ہکلاہٹ پر قابو پانے کیلئے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمدورفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے، یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے، یہ مستند علاج ہے، اس سے مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے، مریض کے گنگنانے، زور زور سے پڑھنے اور کھل کر بات کرنے سے وقتی طور پر ہکلاہٹ میں کمی آ سکتی ہے۔
فی الوقت زبان کی لکنت سے بچنے کا طریقہ تو دریافت نہیں ہو پایا ہے، البتہ اس کے علاج کیلئے مختلف اقسام کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں، علاج کی نوعیت انسان کی عمر، تبادلہ خیال کرنے کے مقاصد اور دیگر عوامل پر منحصر ہوتی ہے، ماہرین کا ماننا ہے کہ ابتدائی عمر میں ہی اگر بچوں کی اس تکلیف کا علاج کر لیا جائے تو انہیں آگے چل کر اس مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اختر سردار چودھری فیچر رائٹر و بلاگر ہیں، انہیں ملکی و غیر ملکی شخصیات اور اہم ایام پر تحریریں لکھنے کا ملکہ حاصل ہے۔