اینٹی ریپ ایکٹ عملدرآمد کیس، اٹارنی جنرل کی عدم پیشی پر عدالت برہم

Published On 07 April,2025 02:54 pm

لاہور: (محمدا شفاق) لاہور ہائیکورٹ نے اینٹی ریپ ایکٹ عملدرآمد کیس میں اٹارنی جنرل کی عدم پیشی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے انہیں 14 اپریل کو طلب کر لیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے درخواست پر سماعت کی، فل بنچ میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیاء باجوہ شامل ہیں۔

عدالت نے ملزم سلمان طاہر کی درخواست پر سماعت کی، درخواستگزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ مبینہ زیادتی کا الزام عائد کرنے والی خاتون کا میڈیکل اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت نہیں ہوا، عدالت ملزم سلمان طاہر کی درخواست ضمانت منظور کرے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا اور چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل آج عدالت میں تشریف لائے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، وفاقی حکومت نے اینٹی ریپ ایکٹ کے متعلق مکمل رپورٹ تیار کر لی ہے۔

چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا آنا ضروری تھا، وہ ہوتے تو یہ جواب وہ دیتے، جو جواب تیار کیا گیا وہ اس قابل ہی نہیں کہ پیش کیا جا سکے۔

جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ گزشتہ سماعت کا حکم پڑھیں اس میں لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل پیش ہوں، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ اس بات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت کا ہر ادارہ اپنی مرضی سے کام کر رہا ہے جس سیکرٹری کا دل کرتا ہے وہ اپنی مرضی سے اٹارنی جنرل آفس کو بتائے بغیر رپورٹ جمع کرا رہا ہے۔

چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کی وجہ سے ہی گزشتہ سماعت ملتوی ہوئی تھی، جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اٹارنی جنرل کو بتا دینا چاہیے تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، ہم یہ کیس پڑھ کر آتے ہیں۔

جسٹس فاروق حیدر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں، جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ اگر اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں تو ان کی طرف سے کیس ملتوی کرنے کی تحریری درخواست ہونی چاہیے، آپ ہمیں پہلے آگاہ کر دیں تا کہ ہم کیس نہ پڑھ کر آئیں، کوئی اور کیس پڑھ لیں۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ 27 اے کا جب نوٹس ہو جائے تو کیا اٹارنی جنرل کو پیش نہیں ہونا چاہیے؟ جس پر چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ پراسیکیوشن کا ہیڈ پراسیکیوٹر جنرل، پنجاب حکومت کا ہیڈ ایڈووکیٹ جنرل تو موجود ہیں، ہم نے پولیس، پراسیکیوشن اور ایڈووکیٹ جنرل کو دیکھا۔

جسٹس فاروق حیدرنے کہا کہ ہمارے سامنے درخواست ضمانت ہے اسکا فیصلہ کرنا ہے آپ بتائیں کہ اس میں میڈیکل کیسے ہوا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ وفاق کی نہیں بلکہ صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اینٹی ریپ ایکٹ پر عملدرآمد کروائے۔

چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ نیشنل میڈیا اس معاملے کو اتنا نہیں اٹھاتا، انٹرنیشنل میڈیا نے زیادہ اٹھایا ہے، اگر انٹرنیشنل پریشر نہ ہوتا تو کیا یہ قانون سازی ہوتی؟

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو 14 اپریل کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔