لاہور:(مرزا خادم حسین جرال) کافی مہینوں سے سماجی، سیاسی اور صحافتی اُفق پر گھٹن تھی۔ ہر موڑ پر اور ہرخبر پر دل چاہتا تھا کہ کچھ تحریر کروں مگر پھر ایک ہی فقرہ میری زبان پر آ کر مجھے روک دیتا تھا کہ ”جے سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچدا اے“۔
میرے تمام کشمیری بھائی مقامی ہوں یا مہاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو اور اس کے سرعت رفتار معاہدوں کو زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرز پر ملک میں ایک ایسا پلیٹ فارم ضرور ہونا چاہیے جو کہ عوامی حقوق کی بات کرے اور بیوروکریسی کے بے لگام گھوڑے کو روک سکے۔
سطحی نظرسے دیکھتے ہوئے مجھے بہت ہی بھایا کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے چند دنوں میں اپنے ساتھ عوام کا جمِ غفیر اکٹھا کر لیا اور حکومتی اداروں کے سامنے تمبر کے ڈنڈے کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور چشمِِ زدن میں اپنے بہت ہی اہم مطالبے منوا لیے جس سے جنرل پبلک کو بہت ہی ریلیف ملا۔ یعنی بجلی کی قیمت قریباً 3روپے فی یونٹ مان لی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ وقت گذرا تو پھر آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنا نیا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا۔
اور پھر پورے آزاد کشمیر کو بند کرنے اور پاکستان کے ساتھ ملنے والے انٹری پوائنٹس بند کرنے تک نوبت آن پہنچی۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے جلوسوں میں پاکستان کے خلاف ایسے ناروا نعرے لگائے جنھیں میرا قلم تحریر کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ حکومتِ پاکستان نے مداخلت کی، پاک فوج، رینجرز اور پنجاب پولیس حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھیجی گئی۔
ہمارے جیسے کئی دردمند لوگوں نے مشورے دیے کہ ریاست ایک نازک مسئلہ ہے، یہاں فوج کشی یا پولیس گردی سے گریز کرنا چاہیے اور مذاکرات سے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ آخرکار پاکستان کے وزیراعظم نے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، جس میں وفاقی وزرا امیرمقام اور طارق فضل چودھری شامل تھے۔ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے پھر ہلاگلا ہوا خون خرابہ ہوا، اس کے بعد ایک اور ہائی پاورڈ مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جس میں پہلے اراکین کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے لوگ بھی شامل تھے۔
معاملہ طے پا گیا اور جو سب سے زیادہ واضح نکتہ اس معاہدے میں ہوا وہ مہاجرین کی بارہ سیٹوں کو ختم کرنے کا تھا، جس کے بارے تحریک کے آغاز پر کسی نے سُنا ہی نہ تھا۔ ان سیٹوں کے خاتمے کے لیے جو جواز پیش کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومتوں کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ مہاجرین کے حلقوں میں فنڈز کا استعمال ہوتا ہے اور کرپشن ہوتی ہے۔
اگر میرے قارئین اجازت دیں تو میں یہ کہوں گا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کرپشن ختم کرنے کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔ یہ مطالبہ صرف مہاجرین کے نمایندگان تک محدود نہیں بل کہ پوری اسمبلی کے اراکین پر لاگو ہونا چاہیے۔ مہاجرین کے حلقوں میں فنڈز نہیں لگانا چاہتے نہ لگائیں، کوئی اعتراض نہیں مگر کسی اصلاح کے بجاے سیٹوں کو سرے سے ختم کرنا دیوانوں کا خواب معلوم ہوتا ہے۔
یہ بارہ مہاجرین کی سیٹیں مقبوضہ کشمیر کی بھی نمایندگی کرتی ہیں اور آزاد ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی اور حکومت صرف آزاد کشمیر کی حکومت نہیں ہے بل کہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی حکومت ہے اور یہ تحریکِ آزادی کے لیے بیس کیمپ کے طور پر بنائی گئی تھی۔ مہاجرین کی بارہ نشستوں سے منتخب ہونے والے اراکین مختلف جماعتوں کے نمایندے ہوتے ہیں وہ حکومتیں تشکیل دینے میں کس طرح کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اصل بات جو بیان کرنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں پاکستان میں مہاجرین کی نشستوں پر ان لوگوں کو ٹکٹ دے کر آگے لاتی ہیں جو کہ حقیقت میں مہاجرین کے نمایندہ ہوتے ہی نہیں اور نہ ہی اسمبلی میں وہ خاطرخواہ کردار ادا کرتے ہیں۔ اس غیرسیاسی روایت پر کوئی قدغن لگانی چاہیے، بل کہ میں تو کہوں گا کہ آزاد کشمیر میں اتنی بڑی تعداد اراکینِ اسمبلی کی ہونی ہی نہیں چاہیے، اسے کم کرنا چاہیے اور اسمبلی اراکین کو حکومت آزاد کشمیر کو باور کروانا چاہیے کہ وہ عیاشی کے لیے نہیں بل کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی صف بندی کرنے کے لیے ہیں اور اپنا اصل مقصد سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کریں۔
میرے عزیزو یہ تو وہ باتیں ہو گئیں جنھیں ہر آدمی سامنے رکھ کر بات کر رہا ہے اور اپنے اپنے دلائل پیش کر رہا ہے۔ مگر بات کچھ اور ہے اور کافی گہری ہے جسے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے اور اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔جب کسی خاص مقصد کے لیے کچھ اہداف طے کر کے کام کیا جائے تو اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
ہم لوگ بھول جانے کی بیماری سے دوچار ہیں وگرنہ ہمیں جو زخم 1971ع میں لگا وہ ہمیں چوکنا رکھتا اور ہم ہر انہونی پر مستعدی سے کڑی نظر رکھتے۔ آج جو آزاد کشمیر میں سیاسی افراتفری پیدا کی گئی ہے یا نیازی حکومت کو گرا کر سیاسی ڈھانچے میں انوکھے کام کیے گئے، وہ کیا تھا۔ آئیے اسے دیکھتے ہیں اور اس کا موازنہ ایسے کئی سابق واقعات سے کرتے ہیں۔ نیازی حکومت آزاد کشمیر میں گرانے کے بعد سیاسی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا گیا کہ جن سیاسی جماعتوں کی آزاد کشمیر میں حکومت ہے وہ حزبِ اختلاف میں بھی بیٹھی ہیں۔
اس طرح عوامی ایکشن کمیٹی کی تشکیل کے لیے راستہ ہموار کیا گیا اور پھر آناً فاناً اہم ترین عوامی مسائل کا حل جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک (جس میں کوئی بڑا نام شامل نہ تھا) کے کھاتے میں ڈال کر اس کی اہمیت بنائی گئی اور ایکشن کمیٹی کو عوام کا اعتماد دلایا گیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے جلوسوں میں پاکستان کے خلاف نعرے لگوا کر کشمیری عوام اور پاکستانی عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
پھر مہاجرین کی سیٹوں کو ختم کرنے کا مسئلہ کھڑا کر کے باشندگانِ آزاد کشمیر اور مہاجرین کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اس طاقت کو تقسیم کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ تاریخ کے کچھ ہی اوراق پلٹیں اور آج کے حالات پر اس وقت کے تمام فریقین کے اعمال کے تناظر میں غور کریں تو آپ کو مہاجر قومی موومینٹ، سقوطِ ڈھاکہ، آپریشن افغانستان میں مماثلت نظر آئے گی۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اگر صرف عوامی مسائل کے حل تک رہتی اور عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے حکومتِ آزاد کشمیر کوقائل کرتی تو بات کچھ سمجھ میں آتی کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی عوامی مفاد کے لیے نکلی ہے اور اسی تک ہی محدود ہے۔
اب جب کہ ایکشن کمیٹی اور حکومتِ پاکستان آپس میں معاملات طے کر رہے ہیں اور وہ بھی اس طرح کے جن کا بلاواسطہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور آئین سے تعلق ہے اور اس میں آزاد کشمیر کی حکومت کو بالکل نفی کر دیا گیا ہے تو عالمی امن نوبل انعام دینے اور لینے والوں کا کردار نظر آتا ہے۔ میں کسی کو غدار نہیں کہتا بل کہ یہ کہتا ہوں کہ کشمیری عوام جذباتی فیصلوں میں اور تعلق داریوں میں نہ اُلجھیں بل کہ ”مشتری ہوشیار باش“۔
اس سے قبل ہی مہاجرین کے نمایندگان نے کشمیری مہاجرین سے لاتعلقی رکھ کر ان کی، بالخصوص نوجوان نسل کی، دلچسپی خاصی حد تک کم کر دی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ قریباً ایک دہائی قبل مہاجرین کی ووٹرز فہرستوں کو ازسرِ نو بناتے ہوئے بے شمار مہاجرین (جو کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں اور کونوں کھدروں میں تھے) کے ووٹ شامل نہ کر کے تنازعِ کشمیر کے حقِ خود ارادیت کے فیصلے کے لیے متوقع راے شماری میں کشمیریوں کی حیثیت کو کمزور کر دیا تھا اور اب مہاجرین کی اسمبلی میں نشستوں کے خاتمے سے مہاجرین کو بالکل لاتعلق کرنے کی سازش کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔
مجھے اس بات سے بہت حیرانی اور پریشانی ہو رہی ہے کہ اس اہم مسئلہ پر وہ طبقہ جو مہاجرین کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نمایندگی کا دعویدار تھا کہیں نظر نہیں آ رہا۔ حال آں کہ سب سے بڑے بینیفیشری مہاجرین کی نشستوں پر منتخب ہونے والے نمایندگان اسمبلی ہیں اور انھیں اپنا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرنا چاہیے تھا۔
ہم کشمیری باشندگانِ ریاست ہوں یا مہاجرینِ ریاست، ہم ایک ہیں ایک رہیں گے۔ تمام پاکستانی ہمارے بھائی ہیں اور محسن ہیں ہم ایک ہیں اور ایک رہیں گے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں ہم سب شامل ہیں اور ان شاءاللہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے خلاف نہ تو کسی سازش کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔ ہم اپنی عسکری تنظیموں کے بازو بن کر رہیں گے۔

 
			 
			 
			 
			 
			 
			 
			 
			 
  
 
          
		   
         
		   
         
		   
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 
