ستائیسویں آئینی ترمیم

Published On 06 November,2025 11:43 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) تمام نظریں پاکستان پیپلز پارٹی کی ہاں پر ہیں، آج ہونے والا پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق پارٹی پالیسی طے کرنے جا رہا ہے، مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بظاہر اس ترمیم کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

اس ترمیم کا اعلان بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کیا جانا بھی دلچسپ تھا، ایک ایسے وقت میں جب حکومتی وزراء بھی لاعلم تھے کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں کیا ہے اور یہ کب آئے گی، یہ اعلان پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے اس کی تفصیلات کے ساتھ کیا جانا ملکی سیاست میں بھونچال لے آیا۔

یہ اعلان بلاول بھٹوکی جانب سے اس لئے کیا گیا کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ ترمیم نا گزیر ہے اور ان کے پاس ہاں کے سوا کوئی آپشن نہیں، تو انہوں نے اپنا اور اپنی سیاسی جماعت کا قد اور اہمیت بڑھانے کیلئے خود پہل کی اور اعلان کیا کہ ملکی سیاست میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے اور پیپلز پارٹی کی ہاں کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا۔

ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جن ایشوز پر مزاحمت کرتی آئی ہے اب انہی کی سپورٹ کرنا پڑ رہی ہے اور وہ تمام ایشوز جن پر پیپلز پارٹی بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی، بلاول بھٹو نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھ کر بتایا کہ ان آئینی شقوں میں ترمیم ہونے جا رہی ہے، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایکس پر بیان میں کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگ کے وفد نے صدرآصف علی زرداری اور اُن سے ملاقات کی اور کہا کہ حکومت نے 27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعاون کی درخواست کی ہے۔

تجاویز میں آئینی عدالتوں کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس، ججز کے تبادلوں کی شقیں، این ایف سی میں صوبائی کوٹے کے تحفظ کا خاتمہ اور آرٹیکل 243 میں ترامیم شامل ہیں، آئینی ترامیم کی تجاویز میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے شعبوں کی وفاق کو واپسی اور الیکشن کمیشن میں تقرریوں پر ڈیڈ لاک توڑنے سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی پالیسی کا فیصلہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 نومبر کو ہوگا، حکومت نے آئینی ترمیم کا مسودہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ شیئر کر دیا ہے، اس مسودے میں یوں تو تمام مجوزہ ترامیم اہمیت کی حامل ہیں مگر جو چیزیں موجودہ صورتحال میں توجہ طلب ہیں ان میں آئین کے آرٹیکل 160 اور آرٹیکل 243 میں ترامیم ہیں۔

آرٹیکل 243 کمانڈ آف آرمڈ فورسز سے متعلق ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہوگا، صدر، وزیر اعظم کے ساتھ مشورے پر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف نیول سٹاف اور چیف آف ایئر سٹاف کا تقرر کریں گے اور ان کی تنخواہوں اور الاؤنسز کا تعین بھی کریں گے۔

آئین کا آرٹیکل 160 قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق ہے، 2010ء میں جب ساتواں این ایف سی ایوارڈ آیا تو آئین کے تحت ہر پانچ سال بعد اس کی تشکیلِ نو ہونا تھی مگر آٹھواں، نواں اور دسوں ایوارڈ جاری نہ ہو سکا، اب جب حکومت اس ایوارڈ میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے تاکہ صوبوں کو ملنے والے محاصل کا کوٹہ تبدیل کیا جائے تو آرٹیکل 160 کی ذیلی شق تھری اے آڑے آئے گی جو کہتی ہے کہ نئے این ایف سی ایوار ڈ میں صوبوں کا کوٹہ اگر تبدیل کرنا ہے تو اسے بڑھایا تو جا سکتا ہے گزشتہ ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکتا۔

اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 160 تین اے میں تبدیلی کی جا رہی ہے، اس تبدیلی کے بعد این ایف سی ایوارڈ کا فارمولا بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، اس وقت محاصل کی تقسیم کا فارمولا آبادی کی بنیاد پر بنایا گیا ہے، موجودہ این ایف سی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وفاق کماتا ہے مگر قرض لیتا ہے اور صوبے صرف خرچ کرتے ہیں، پاکستان میں معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ فارمولا بھی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی این ایف سی میں تبدیلی کی تجاویز کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی مگر اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو اس ترمیم پر مہر ثبت کرنی ہے۔

آرٹیکل 191 میں ترمیم کر کے مستقل آئینی عدالتیں بنانے کی تجویز ہے، اس سے قبل 26 ویں ترمیم کے ذریعے اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل آئینی بنچز بنائے گئے، ججز کے تبادلوں کی شق میں تبدیلی کیلئے آئین کے آرٹیکل 200 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن اراکین کے تقرر کے دوران پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے آئین کے آرٹیکل 213 ٹو اے، ٹو بی میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی سے متعلق اہم ترین شعبے اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے تھے مگر صوبے ان شعبوں میں ڈلیور کرنے میں ناکام رہے، 27 ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ دونوں اہم ترین شعبے وفاق کو واپس کرنے کی تجویز ہے۔

آئینی ترمیم سات نومبر کو پہلے سینیٹ میں پیش ہوگی اور دو سے تین روز میں منظوری کے بعد قومی اسمبلی جائے گی، حکمران اتحاد کے پاس آئینی ترمیم کیلئے نمبرز پورے ہیں، قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو 224 ارکان درکار ہیں جبکہ اس کے پاس 237 اراکین ہیں، جن میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پاکستان پیپلزپارٹی کے 74، ایم کیو ایم کے 22، (ق) لیگ کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4، آزاد4، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیاء اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہیں۔

سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کیلئے 64 اراکین کے ووٹ درکار ہیں جبکہ حکومت کے پاس 65 کا نمبر ہے، ایوانِ بالا میں پیپلز پارٹی کے 26، (ن) لیگ کے 21، آزاد 6، اے این پی کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3، نیشنل پارٹی اور (ق) لیگ کا ایک ایک سینیٹر ملا کر حکومت کے پاس سینیٹ میں دو تہائی اکثریت موجود ہے، مگر سینیٹ میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں دو تہائی اکثریت صرف دو ووٹوں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے سینیٹ کا مرحلہ عبور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 27 ویں آئینی ترمیم ملک کے آئندہ سیاسی منظر نامے پر بڑی تبدیلیاں رونما کرنے جا رہی ہے۔