پشاور:(ذیشان کاکا خیل) خیبرپختونخوا حکومت نے ضم شدہ اضلاع کے مالی اور انتظامی مسائل سے متعلق جامع ڈیٹا مرتب کر لیا، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد صوبائی خزانے پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ بڑھ گیا۔
دستاویزات کے مطابق انضمام سے قبل خیبرپختونخوا کا این ایف سی شیئر 14.6 فیصد تھا جو انضمام کے بعد 18.96 فیصد ہونا چاہیے تھا تاہم خیبرپختونخوا کو 5.7 فیصد کم شیئر ملنے سے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، فاٹا انضمام کے بعد صوبے کی آبادی میں 1.71 فیصد اضافہ ہوا جس سے صوبائی بجٹ پر سالانہ 134 ارب روپے کا اضافی دباؤ پڑا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انضمام کے نتیجے میں صوبے میں غربت کی شرح میں 2.29 فیصد اضافہ ہوا جس سے 180 ارب روپے کا مزید بوجھ بڑھ گیا ہے جبکہ ریونیو کلیکشن سمیت کئی شعبوں میں نمایاں کمی بھی سامنے آئی ہے، وفاق کی جانب سے دی جانے والی گرانٹس بھی ناکافی قرار دی گئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ضم اضلاع کے جاری اخراجات کے لیے 25-2016 میں کم از کم 61 ارب روپے کی ضرورت ہے جبکہ 22-2021 سے 25-2024 تک صوبائی حکومت 68 ارب روپے اپنے وسائل سے خرچ کر چکی ہے، سال 25-2024 میں ضم اضلاع کے اصل اخراجات 97 ارب روپے تھے لیکن وفاق نے صرف 62 ارب روپے مختص کیے تھے۔
ذرائع کے مطابق مالی مشکلات کے باعث ضم اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی ناگریز ہے۔



