لاہور: (پروفیسر شریف المجاہد) قائد اعظم نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی امن وامان کے خواہاں تھے، وہ’’ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو‘‘ کے اصول پر ایمان رکھتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ 1930 ء کے بعد کے عشرے میں جب ہندوؤں اور کانگریس نے اس اصول کو تج دیا اور اس کے برعکس اور متضاد راہ اختیار کی تو اسی رویے اور بعض دیگر عوامل نے قائد اعظم کو بالآخر مطالبۂ پاکستان پر مجبور کر دیا۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خود مطالبۂ پاکستان بھی، جیسا کہ خود قائد اعظم نے وضاحت کی ’’ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو‘‘ کے اسی اصول کی بنیاد پر کیا گیا تھا، یعنی مطالبۂ پاکستان کا مقصد دراصل یہ تھا کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیں، ہندو اور مسلمان، اپنے اپنے علاقوں میں ایک دوسرے کی مداخلت کے بغیر اپنے نظریات، خیالات اور روایات کے مطابق اپنے اپنے امور کی نگرانی کریں تاکہ برصغیر میں دونوں قوموں کیلئے امن اور خوش ہمسائیگی کے ساتھ زندہ رہنے کی راہ ہموار ہو سکے، اس تشریح اور توضیح سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ دراصل پورے براعظم ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ تھا۔
اس طرح گویا قائداعظم نہ صرف پاکستان کیلئے مصروف تھے بلکہ ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کی آزادی یعنی ہندوؤں کی آزادی کیلئے بھی جدوجہد کر رہے تھے، تاہم آزادی کیلئے قائداعظم کا یہ جوش و خروش صرف مسلمانوں یا ہندوستان کی حد تک محدود نہ تھا، یہی جوش و ولولہ ان تمام محکوم قوموں کیلئے بھی اُن کے دل میں موجزن تھا جو غیر ملکی راج سے آزادی حاصل کرنے کی جدو جہد میں مصروف تھیں۔
اس کے باوجود کہ وہ ہمہ وقت، پورے انہماک اور تندہی کے ساتھ اپنے کروڑوں عوام کیلئے جدوجہدِ آزادی میں مصروف تھے، وقت نکال کر انہوں نے کئی مواقع پر ایشیا اور افریقہ کے دوسرے ملکوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کی اپنی اور اسلامیانِ ہند کی طرف سے مکمل اخلاقی حمایت کی۔
خاص طور پرمغربی و شمالی براعظم افریقہ کے مسلم ممالک میں فرانسیسی نو آبادیوں، افریقہ میں سابق اطالوی نو آبادیوں، مصر، مشرقِ وسطیٰ اور انڈو نیشیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کی انہوں نے کھل کر حمایت کی، اسی بنا پر نو آبادیاتی ممالک کے محکوم عوام کی آزادی کی حمایت قیام کے وقت ہی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول بن گئی۔
جناح تمام اقوام عالم سے دوستی کے قائل تھے، وہ قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت، انصاف اور ایمانداری پر یقین رکھتے تھے، اس کے باوجود کہ ہندوستان کی طرف سے مستقل یہ کوششیں جاری تھیں کہ کسی نہ کسی طرح گلا گھونٹ کر پاکستان کو مار دیا جائے، قائد کی طرف سے ہندوستان کو ہمیشہ شاخِ زیتون ہی پیش کی گئی۔
انہوں نے ہر ایک کو عفو و درگزر سے کام لینے کی تلقین کی، ہمیشہ اس بات پرزور دیا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں باہمی دشمنی ترک کر دیں، دلوں کو تمام تلخیوں اور کدورتوں سے پاک کر دیں اور تشدد کے تمام تصورات ذہنوں سے نکال دیں، انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تمام اختلافات کو ہمیشہ پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوششیں کیں، انہوں نے براعظم ہند وستان کیلئے ’’منرو نظریہ‘‘ کے مطابق کسی نہ کسی قسم کا کوئی انتظام قائم کرنے کا خیال ظاہر کیا، بھارت کو مشترکہ دفاع کی تجویز بھی پیش کی۔
قائد اعظم ملتِ مسلمہ کے مکمل اتحاد کے بھی علمبر دار تھے، 1920 ء کے بعد کے عشرے میں جب ترک قوم اپنی جہدِ بقا میں مصروف تھی قائد اعظم نے اس سے پوری پوری ہمدردی کا اظہار کیا، قرطاسِ ابیض (1939ء) اور 1930ء اور 1940ء کے بعد کے عشروں میں یہودیوں کی نقل ِمکانی اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں انہوں نے برطانیہ سے یقین دہانیاں حاصل کر لی تھیں، 1940ء اور 1947ء کے دوران جب انڈونیشیا پر ولندیزیوں نے دوبارہ قبضہ جمانے کی کوشش کی تو قائد اعظم نے اس پر سخت نکتہ چینی کی، 1949 ء سے 1951ء کے دوران پاکستان کے زیر اہتمام جو چند بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں ان کا تصور قائداعظم کی فکر کا نتیجہ تھا۔
قائد اعظم کا سماجی فلسفہ اخوت، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا، اُن کا کہنا تھا کہ براعظم ہندوستان میں انسانی حقوق سے محرومی کے خدشے اور خطرے نے ہی ہندوستان کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کے مطالبہ پر مجبور کیا، وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیے، انہوں نے پرُ زور انداز میں تلقین کی کہ پاکستان کی سر زمین سے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کر دیا جائے، انہوں نے دولت مندوں کو مشورہ دیا کہ بدلتے ہوئے حالات ہیں وہ اپنا اندازِ فکر تبدیل کر لیں۔
انہوں نے سرکاری افسروں پر زور دیا کہ وہ ایک ایسی فضا کو جنم دیں اور ایسے جذبے اور لگن سے کام کریں کہ ہر شخص کے ساتھ انصاف ہو سکے اور اس کو اپنا حق مل سکے، قائد اعظم جمہوریت پر یقین رکھتے تھے لیکن وہ اس بات کے بھی سختی سے قائل تھے کہ پاکستان کے مستقبل کے آئین میں اسلام کے بنیادی اور لازمی عنصر کا اظہار ہونا چاہیے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اسلام اور اس کے تصورات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔
انہوں نے ہمیشہ اس امر پر زور دیا کہ اسلام کے عظیم الشان اصولوں ہی کو پاکستان کا رہبر و رہنما ہونا چاہیے، وہ حقوق ، مراعات اور فرائض میں مساوات، ہر ایک سے ہر معاملے میں حق و انصاف سے کام لینے اور کسی تفریق کے بغیر سب لوگوں کیلئے مساوی شہریت کے قائل تھے۔
اپنی قوم کے بنیادی اور پیدائشی حقوق کیلئے زندگی بھر جدوجہد کرنے والے محمد علی جناح نے صرف اپنی قوم کی فلاح اور بقا کیلئے مطالبۂ پاکستان کو اپنا مسلک بنایا، یہ مطالبہ کیونکہ اپنی اصل میں نہایت غیر معمولی اور غیر روایتی تھا اس لئے اس کے سمجھنے میں بہت لوگوں کا غلطی کرنا اور اس کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا خارج از امکان نہ تھا، اسی غلط فہمی کی بنا پر ان کی شدید مخالفت اور مزاحمت بھی لازمی تھی، تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ انہیں نہ صرف اُس دور میں نہ سمجھا گیا بلکہ آج بھی بعض لوگ اُن کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔
تاہم یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس عظیم شخصیت اور اس کے عظیم مشن کو سمجھنے اور اس کی عظمتوں کو تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کیونکہ مخالفانہ جذبات کی گرداب حقائق سے چھٹنے لگی ہے، چنانچہ یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ عصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے، اُن کی تعریف ایسے لوگوں نے بھی کی ہے جو اُن کے نظریات کے مخالف تھے، آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘ اورVerdict On India کے مصنف Beverley Nichols نے انہیں ایشیا کا انتہائی اہم شخص قرار دیا ہے، اور ڈاکٹر کیلاش نا تھ کا ٹجو نے جو1948 ء میں مغربی بنگال کے گور نر تھے، اُن کے بارے میں کہا ہے ’’ وہ اس صدی کے سب سے ممتاز فرد تھے، صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں‘‘۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبد الرحمن عظام پاشا نے انہیں عالم اسلام کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک قرار دیا، مفتی اعظم فلسطین نے اُن کی موت کو تمام عالم اسلام کیلئے ایک عظیم نقصان قرار دیا، تاہم قائد اعظم کی ذاتی اور سیاسی کامیابیوں کو نہایت جامع انداز میں انڈین نیشنل کانگریس کے فارورڈ بلاک ونگ کے سربراہ سرت چندر بوس نے چند الفاظ میں سمو دیا ہے، 1948ء میں قائد اعظم کے انتقال پر انہوں نے کہا ’’ مسٹر جناح ایک وکیل کی حیثیت سے عظیم تھے، ایک سیاستدان کی حیثیت سے بھی ان کی عظمت مسلم ہے، وہ مسلمانوں کے رہنما کی حیثیت سے بھی عظیم تھے، ایک عالمی سیاستدان اور مرتبہ کی حیثیت سے بھی وہ عظیم رہے اور ایک عملی انسان کی حیثیت سے وہ عظیم ترین تھے، مسٹر جناح کے انتقال سے دنیا ایک عظیم ترین مدبر اور پاکستان اپنے خالق ، فلسفی اور رہنما سے محروم ہو گیا۔
یہ تھی قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور یہ تھا اُن کا مشن، یہ تھیں ان کی کامیابیاں اور ان کی کامرانیاں، اس لئے اگر آج قوم انہیں احسان مندی اور تشکر کے جذبات سے یاد کرتی ہے اور اگر کروڑوں پاکستانیوں کے ذہن میں اُن کی یاد ہمیشہ کی طرح تازہ ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، آج بھی پاکستان کی سیاسی زندگی پر ان کے اثرات نہایت گہرے ہیں، پاکستانیوں کیلئے ان کے ارشادات آج بھی متنازع مسائل اور سیاسی تنازعات میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان، جس کا قیام ایک معجزہ ہے، صرف ایک شخص کی بے مثل سیاسی بصیرت اور ذہانت کی زندہ علامت ہے اور وہ شخص ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح۔
خاندان اور شخصیت
قائداعظم محمد علی جناح کا تعلق گجراتی مسلمان تاجر برادری کے خاندان سے تھا، بعض روایات کے مطابق قائد اعظم کے اجداد پنجاب کے علاقے ساہیوال سے کاٹھیاواڑ منتقل ہوئے تھے، پردادا کا نام میگھ جی تھا جو ہندوستانی ریاست کاٹھیاواڑ کے گاؤں پانیلی کے رہنے والے تھے، میگھ جی کے ایک بیٹے کا نام پونجا بھائی تھا جو قائداعظم کے دادا تھے، قائداعظم کے والد جناح پونجا بھائی کی شادی ریاست کاٹھیاواڑ کے گاؤں ڈمرتی کی ایک خاتون شیریں بائی سے 1874ء میں ہوئی۔
1875ء میں جناح پونجا بھائی کراچی آگئے اور یہاں چمڑے کی تجارت شروع کی، محمدعلی جناح بچپن ہی سے دبلے پتلے تھے پھر کھیل کود، دوڑنے بھاگنے میں لگے رہتے، خوراک کی طرف توجہ کم رہتی، مزاج میں نفاست شروع سے تھی، موٹا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔
ایک دِن محمدعلی جناح نے سوچا کہ بنٹے کھیلنے سے مٹّی ہاتھوں کو لگتی ہے اور ہر بار جھکنا پڑتا ہے، انہوں نے کرکٹ کا سُن رکھا تھا چنانچہ کرکٹ کی گیند اور لکڑی لے آئے اور نیا کھیل اپنا لیا، رات دیرتک لالٹین جلا کر پڑھتے رہتے، ایک رات والدہ مٹھی بائی نے دیکھا تو محمد علی جناح سے کہا کہ ’’تم دیر سے پڑھ رہے ہو، سو جاؤ‘‘ تو ذہین بچے نے جواب دیا ’’بڑا آدمی بننے کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے‘‘، محمدعلی جناح نے چہارم گجراتی سٹینڈرڈ پاس کرنے کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لیا، یہاں ساڑھے چار سال تک پڑھا اور 16 برس کی عمرمیں دسویں پاس کرنے کے بعد انگلستان روانہ ہوگئے۔
محمد علی جناح نے لندن کے بیرسٹری کے چار اداروں : Gray s Inn، Middle Inn ، Inner InnاورLincoin s Inn میں سے لنکنزاِن منتخب کیا کیونکہ وہاں دنیا کے قانون دانوں کے نام تحریر تھے اور سب سے اوپر حضرت محمد مصطفیﷺ کا اسم مبارک تھا، سوچئے 16 برس کی عمر کے بچہ کے دل میں حضرت محمد مصطفیﷺ سے کتنی محبت تھی، لندن تعلیم کے دوران آپ فارغ وقت زیادہ تر اسلامی لائبریری میں صرف کرتے تھے اور اسلام کے بارے میں علم میں اضافہ کرتے تھے، یہ اُس محمد علی جناح کی فکری تشکیل کے مراحل تھے جس نے آگے چل اسلامیان ہند کا قائد اعظم بنناتھا۔
پروفیسر شریف المجاہد برصغیر تحریک آزادی کی تاریخ پر سب سے زیادہ لکھنے والوں میں سے ایک تھے، حیات قائداعظم پر ان کا کام غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔



