جعلی خبریں برطانیہ میں ایشیائی برادری کو کورونا ویکسین دینے میں رکاوٹ قرار

Published On 16 January,2021 09:30 pm

لندن: (ویب ڈیسک) برطانیہ میں ڈاکٹر نے انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر جعلی خبروں کی وجہ سے برطانیہ کی جنوبی ایشیائی برادریوں کے بعض افراد کووڈ 19 کی ویکسین کو مسترد کر سکتے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے قومی صحت کے ادارے این ایچ ایس اینٹی ڈس انفارمیشن مہم کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر ہرپریت سود نے کہا کہ یہ بہت بڑی تشویش ہے اور حکام اتنی جعلی خبروں کو درست کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غلط معلومات میں زبان اور ثقافتی رکاوٹوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ ویسٹ مڈلینڈ میں ایک جی پی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے جنوبی ایشیائی مریضوں میں سے کچھ نے ویکسین لینے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول، زرداری کی نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی تقریب میں مدعو کیے جانے کی خبریں جعلی قرار

این ایچ ایس انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سود نے کہا کہ حکام جنوبی ایشین کمیونیٹیز کے رول ماڈل اور برادری کے رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ وہ اس ویکسین کے بارے میں غلط افواہوں کی نشاندہی کریں۔ اس وقت زیادہ تر فیک نیوز ویکسینیشن میں موجود عناصر کے بارے میں پھیلائی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ویکسین میں گوشت والی چربی نہیں ہے، ویکسین میں کوئی سور کا گوشت نہیں ہے، تمام مذہبی رہنماؤں اور کونسلوں اور مذہبی جماعتوں نے قبول کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہم رول ماڈل اور انفلینوسر (معاشرے کو متاثر کرنے والی شخصیات) تلاش کریں اور عام شہریوں کے بارے میں بھی سوچیں جنھیں اس معلومات کے بارے میں تیزی سے آگاہ کریں تاکہ وہ سب ایک دوسرے کو قائل کرسکیں کیونکہ بالآخر ہر ایک شخص دوسرے شخص کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فلپائن: کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی، شہری پر تشدد کی ویڈیو جعلی قرار

ڈاکٹر سمارا افضل انگلینڈ کے وسطی علاقے کے ایک شہر ڈڈلی میں لوگوں کوویکسینیشن دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام مریضوں کو فون کر کے ان کو ٹیکے لگوا رہے ہیں لیکن سٹاف کا کہنا ہے کہ ساؤتھ ایشین مریض انکار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے دوستوں سے اور خاندان میں بھی اسی قسم کی باتیں سنی ہیں۔ میرے دوستوں نے مجھے فون کیا تھا کہ میں ان کے والدین یا ان کے دادا دادی کو بھی ویکسینیشن لینے پر راضی کروں۔

رینا پُجارا انگلینڈ کے شہر ہیمپشائر میں بیوٹی تھیراپسٹ اور ایک باعمل ہندو خاتون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے ان پر کسی نے غلط معلومات کی بمباری کر دی ہو۔

انھوں نے کہا کہ کچھ ویڈیوز خاصی پریشان کن ہیں خاص طور پر جب آپ دیکھتے ہو کہ اطلاع دینے والا شخص ایک ڈاکٹر ہے اور آپ کو بتا رہا ہے کہ ویکسین آپ کے ڈی این اے میں تبدیلی لائے گی۔ ایک عام آدمی کے لیے یہ بہت الجھا ہوا مسئلہ ہوتا ہے اور خاص کر جب آپ یہ بھی پڑھتے ہیں کہ ویکسین میں شامل اجزا گائے سے نکلالے گئے ہیں اور ہندوؤں کی حیثیت سے ہمارے لیے گائے مقدس ہے۔۔۔یہ پریشان کن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا ویکسین میں 5G مائیکروچپ کا سرکٹ شامل کرنیکی خبریں جعلی قرار

دریں اثنا ایک سو کے قریب مساجد نے ویکسین کے خلاف ہونے والے گمراہ کن پراپیگنڈا کے رجحان کی روک تھام کے لیے مہم میں شمولیت اختیار کی ہے اور اپنی برادریوں کو بھی ویکسین لینے پر راضی کیا ہے۔

مساجد اور علما کے قومی مشاورتی بورڈ کے سربراہ قاری عاصم نے کہا کہ اخلاقی نقطہ نظر سے [ویکسین] لینے میں کوئی دریغ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو نقصان سے بچائیں۔

رائل سوسائٹی آف پبلک ہیلتھ کے ذریعے جاری کردہ ایک حالیہ سروے میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ نصف سے زیادہ سیاہ فام، ایشیائی اور اقلیتی نسلی (بی اے ایم ای) افراد کورونا وائرس کی ویکسین لینے پر خوش ہوں گے۔ اس میں پتا چلا کہ 57 فیصد نے کہا کہ وہ ویکسین لیں گے اور اس کے مقابلے میں 79 فیصد سفید فام افراد نے ویکسین لینے کی حامی بھری۔
 

Advertisement