لاہور: (روزنامہ دنیا) ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (ماہر معاشیات): یہ بجٹ غلط دعووں پر مبنی غلط اعدادوشمار پر مبنی بجٹ ہے۔ البتہ اس میں عوام کے لیے کچھ ریلیف ہے۔ اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جس قدر ریلیف دینے کی بات کی گئی ہے اس سے زیادہ عوام کی جیب سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ تو پیٹرولیم منصوعات کی قیمتیں ہر پندرہ دن بعد ریویو ہوا کریں گی اور اس میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوگا جس کا اثر براہ راست عوام پر پڑے گا۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ پیٹرولیم لیوی ہے جسے ہم بھتہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی جواز موجود نہیں ہے، سپریم کورٹ نے اسے غلط قرار دیا تھا تو اس کا نام تبدیل کردیا گیا۔
بنیادی طور پر یہ ٹیکس چوری کے حوالے سے لگایا جاتا ہے اور صوبوں کو اس میں حصہ نہیں ملتا۔ 2018میں یہ 150ارب روپے تھا جبکہ اس بجٹ میں آئندہ سال کے لیے 610ارب روپے کا پیٹرولیم لیوی کا ہدف رکھا گیا ہے جو عوام کے ساتھ کھلم کھلا زیاتی ہے اور جس سے واضح ہے کہ پیٹرول کے نرخ بڑھائے جائیں گے اور اس کے بعد اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جب بھی بجٹ تقریر کی جاتی ہے تو فیکٹس اینڈ فگرز کو چیک کرلیا جاتا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آیا کہ شوکت ترین صاحب کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے شرح سود کو کم کرکے معیشت کو نقصان پہنچایا، یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ جب گزشتہ حکومت گئی تھی تو افراط زر چار سے ساڑھے چار فیصد تھا اور شرح سود 7فیصد تھا جسے وزیر صاحب غلط قرار دے رہے تھے۔ لیکن آج جو صورتحال ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مارچ سے جولائی تک اسٹیٹ بینک نے شرح سود کم کرکے 7فیصد کی ہے ۔ اب جو مہنگائی ہے وہ 10.9فیصد ہے، اس لحاظ سے شرح سود 4فیصد کم ہے۔ اگر ماضی کی حکومت کا 4.5فیصد مہنگائی میں 7فیصد شرح سود رکھنا تباہی تھی تو موجودہ صورتحال کو وزیر صاحب کیا قرار دیں گے۔ اس کے ساتھ دوسرا تباہ کن کام حکومت نے یہ کیا ہے کہ فروری 2020میں دو کروڑ سے زیادہ بچت کھاتہ داروں کو 11.25فیصد یعنی 11ہزار ارب روپے ایک سال کے تناسب سے منافع مل رہا تھا ۔
اسٹیٹ بینک نے تین ماہ میں اسے کم کرکے 5.5فیصد کردیا ہے اور اس طرح ایک سال میں ان کھاتہ داروں سے 500ارب روپے واپس کھینچ لیے گئے ہیں۔ یہ بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 26اے اور 40اے سمیت آئین پاکستان کی شق 63کی خلاف ورزی ہے ۔اس بجٹ میں بنیادی طور پر خوشنما الفاظ زیادہ ہیں اور اصل گوشے چھپا لیے گئے ہیں۔ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ہمیں تباہ شدہ معیشت ملی ، پھر آئی ایم ایف سے قرض لیتی ہے اور گروتھ ظاہر کرنا شروع کرتی ہے۔ مگر جب اگلی حکومت آتی ہے تو وہ پھر یہی راگ الاپتی ہے۔ یہ ساتویں حکومت ہے جو ایسا کررہی ہے۔ 2018میں جب حکومت بدلنے والی تھی تو اگرچہ ملکی صورتحال کافی خراب تھی مگر اس ایک سال ملک میں 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئی تھی مگر اس حکومت کے تین سالہ دور حکومت میں مجموعی بیرونی سرمایہ کاری 3ارب ڈالر آئی ہے تو 11ارب ڈالر کا جھٹکا تو یہیں پر لگ چکا ہے۔ اس سال اپریل میں ایک اور عجیب کام ہوا، پورا سال اسٹاک میں ایک پیسہ بھی نہیں آیا تھا مگر اچانک اپریل میں 2.7ارب ڈالر آگیا۔اس کی وجہ سے ایک دم اسٹاک ایکسچینج اوپر چلا گیا۔ اسی طرح ماضی میں بھی چند ماہ پہلے باہر سے پیسا آیا اور لوگوں نے 39فیصد منافع کمایا اور پیسا واپس چلا گیا۔ اس وقت بھی دعوے کیے جارہے تھے کہ دنیا کے بہترین اسٹاک ایکسچینجز میں سے ہے اور آج بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ یہ بجٹ بنیادی طور پر عمران خان صاحب کے دس نکاتی ایجنڈے کے یکسر متضاد ہے۔ انھوں نے دعوا کیا تھا کہ سو دنوں میں عدل و انصاف پر پر مبنی ٹیکسوں کی پالیسی نافذ کردیں گے۔ پیٹرولیم لیویز صفر اور جی ایس ٹی 17سے 7فیصد پر لے آئیں گے۔ آج کے بجٹ میں ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتی پالیسی کو دیکھا جائے تو صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔ جہاں تک بات ہے اس بجٹ کی تو میرے خیال سے اس بجٹ سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور معاشی چیلنجز بھی بدستور موجود رہیں گے۔
شبر زیدی (ماہر ٹیکس امور)
یہ بجٹ ہر حوالہ سے عوام دوست بجٹ ہے۔میں نے دس پندرہ سال بعد پاکستان میں مثبت بجٹ دیکھا ہے۔ اس بجٹ میں ایسی کوئی چیزنہیں دیکھی جوکسی بھی طبقے کو تنگ کرے۔کل جو اکنامک سروے آیا تھا یہ بجٹ اسی کا عکس ہیاور اس سے بہتر معاشی منصوبہ بندی شاید ایسی صورتحال میں ممکن نہیں تھی۔ میں نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھاکہ پاکستان میں ٹیکس ریونیوکہاں سی جمع ہوتاہے۔ اب لوگ سوال کررہے ہیں کہ ایک ہزار ارب روپیٹیکس کہاں سے جمع ہوگا۔ متوقع امپورٹس 55 ارب ڈالرہیں جو پچھلی سال سے6 سے7ارب ڈالرزیادہ ہیں۔ اس لیے صورتحال کو بہت بری کسی بھی طریقے سے نہیں کہا جاسکتا۔ امپورٹس بڑھنیکا ٹیکس لگالیں توتقریبا400 سے500ارب روپے بڑھ جاتاہے۔ گزشتہ مالی سال میں امپورٹس 50 سی نیچے رہیں جواچھی بات ہے۔اب 400 سے 500 ارب ریگولر امپورٹ پر ٹیکس سے آئے گا۔ حکومت نے ایس ایم ای ٹیکسیشن کی نئی اسکیم متعارف کرائی ہیاور ایس ایم ای ٹیکسیشن میں ٹیکس ریٹ کم کرکے7.5فیصد کردیاہے۔شوکت ترین نے کہا کہ ٹریک اینڈ ٹریس کو4 انڈسٹری میں اگلے سال نافذ کرینگے۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ٹریک اینڈ ٹریس کے نتائج آنے میں وقت لگے گا۔بینکوں پر کیش ود ہولڈنگ ختم کرنا بھی صحیح قدم ہے۔ میں نے بھی یہ کام کرنے کی کوشش کی تھی مگر میں ناکام ہوگیا تھا مگر شوکت ترین صاحب نے یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ہمارا ایف بی آر کا عملہ شدید نالاں ہوگا اس بجٹ سے جو آج حکومت نے پیش کردیا ہے۔ پہلی دفعہ سیلف اس سیسمنٹ سسٹم کو ٹھیک کیا ہے اوراس بجٹ میں ہراساں کرنیوالے افسران کے ہاتھ پیرکاٹ دیے گئے ہیں جس سے عوام میں سے خوف کا خاتمہ ہوگا۔شوکت ترین صاحب نے کہا ہے کہ آڈٹ کیاختیارات بھی افسران سے لیناچاہتے ہیں۔دیکھناہوگاافسران انکریمنٹل گروتھ دیرہے ہیں یا ٹیکس سے دورکررہے ہیں۔افسران کودرمیان سینکال کرآٹومیٹشن کی طرف جایاجائے۔انکم ٹیکس آرڈیننس2001 سی جوحاصل کرناتھاوہ خراب اسیسمنٹ سے ختم کردیاگیا ہے۔ ہراساں کرنیوالے20ہزارلوگوں کوریگولرسسٹم سینکالاجائے۔ ہراساں کرنیوالے افسران کوکام پرلگایاجائے کہ لوگوں کورجسٹرکریں۔شوکت ترین نیبھتہ خوری،غنڈہ گردی کاماحول بدلنے کا رسک لیا ہے جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ شبر زیدی صاحب کا کہنا تھا کہ آئی ٹی اوز کے ہاتھ سے تمام طاقت ختم کردی گئی ہے۔متعارف کرائی گئی سیلف اسیسمنٹ اسکیم پوری طرح فعال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے افسران اورعملہ اس بجٹ سے شدید نالاں ہوگا،حکومت کو ٹیکس چور مافیا اورافسران کاگٹھ جوڑ روکنا ہوگا۔
ذیشان (ماہر معاشیات)
ٹیکس جمع کرنے کے حکومتی ہدف کے حوالے سے ماہر ٹیکس امور ذیشان کا کہنا تھا کہ 12سیکٹرز ایسے ہیں جو سروسز سیکٹر ہیں اور ان پر سیلز ٹیکس کا اطلاق صوبائی سطح پر ہوتا ہے جن میں ریسٹورینٹ اور ہوٹلز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان پر بھی پوئنٹ آف سیل لگانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب تک وہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہونگے اس وقت تک ان پر پی او ایس لگ ہی نہیں سکتا۔ یہ وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے اس پر عملدرآمد میں مشکل ہوگی ۔ تاہم پی او ایس لگانے سے جو فائدہ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اپنی سیل کے درست اعدادوشمار دینے لگ جائیں گے جس سے ایف بی آر کا ایک اہم اعتراض بھی ختم ہوجائے گا۔ اس سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ٹیکس کلیکشن میں بھی اضافہ ہوگا۔ کیپیٹل گین ٹیکس میں چھوٹ دینے سے فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ حصص کے کاروبار میں سرمایہ کاری کریں گے۔ یہ بنیادی اصول ہے کہ اگر ٹیکس ریٹ کم ہوگا تو ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوجائے گا اور زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس دینے لگ جائیں گے۔ اب ایس ایم ایز کے لیے ٹیکسیشن کی ایک مختلف اسکیم لائی جارہی ہے جہاں ٹرن اوور ٹیکس کم کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ حکومت کا بہترین اقدام ہوگا جو کافی عرصے سے حکومت کو مشورہ بھی دیا جارہا تھا۔ اس لیے کہ جو چھوٹا بزنس مین ہے وہ تو ٹیکس نیٹ میں ہے ہی نہیں۔