دہلی میں اُردو زبا ن کی ابتدا ء

Published On 02 May 2017 11:44 AM 

مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں اُردو زبان مغل دربار میں خاصی پذیرائی اور رسائی حاصل کر چکی تھی

لاہور (روزنامہ دنیا ) دِلّی میں اُردو زبان کی ابتدا اور رواج سے پہلے دکن میں زبان اُردو خاصی شناخت اور مقام حاصل کر چکی تھی ۔ گو کہ دِلی میں بھی یہ بول چال میں شامل تو ضرور رہی مگر اِسے باقاعدہ ادبی مرتبہ حاصل نہ ہوا تھا ، لیکن دکن میں اِسے مقبولیت و مقام شاہان دکن کی ادب پروری کی وجہ سے جلد حاصل ہوگیا تھا ۔ ڈاکٹر محمد اسلم قریشی اِس بارے میں لکھتے ہیں کہ شاہجہان کے زمانے سے قبل ہی اُردو قدیم ، جسے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا مثلا ً ملتانی ، لاہوری ، دکنی ، گجراتی اور ہندوستانی ، ہندوستان کے اطرا ف و اکناف میں بولی اور سمجھی جا تی تھی۔

مختلف علاقوں میں شعر و ادب میں بھی استعمال ہونے لگی تھی ۔ مثال کے طور پر   منتخب التواریخ    (خافی خان ،1595 ء) قدیم اُردو کے بول چال کی مثال ہے۔ شاہجہان نے حسبِ ضرورت اِس نووارد زبان میں رقعات تحریر کئے تھے ۔ جن دنوں شاہجہان کے فرزندوں شجاع اور اورنگ زیب میں ٹھنی ہوئی تھی ۔ شاہجہان نے ایک شِقہ شجاع کو لکھا تھا جو کسی طرح اورنگ زیب کے ہاتھ لگ گیا جس کے بعد اورنگ زیب کو بھی اُردو زبان ہی میں پیغام کا جواب تحریر کیا تھا ۔ اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُردو زبان اُس وقت مغل دربار میں خاصی پذیرائی اور رسائی حاصل کرچکی تھی ۔

دربار شاہی کے علاوہ محلات شاہی میں بھی اِس کا رواج زور پکڑ چکا تھا ۔ حافظ محمو د شیرانی   پنجا ب میں اُردو   میں شیخ بامن متوفی 1506ء کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ اِس زبان کو دہلوی کے نام سے یا د کرتے ہیں ۔ شاہجہان کے دور 1628ء تا 1659ء تک سر زمین گجرا ت میں بھی اِس کی تحر یر و تصنیف عمل میں آچکی تھی ۔ فرق یہ تھا کہ اِس میں تھوڑی سی ملاوٹ علاقائی زبانوں کی موجود تھی لیکن تحریر و تقریر میں اِس کا رواج عام ہو چکا تھا ۔ دِلّی کے شاہانِ مغلیہ کے دور میں اُردو نے عروج حا صل کیا ۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ملا عبدالواسع ہانسوی نے اُردو ہندی الفاظ کی ایک لغت مرتب کی تھی جس کا نام   غرائب اللغات   رکھا ۔

عرصہ بعد سراج الدین خان آرزوؔ نے اُس پر نظر ثانی کی ، بہت سی اغلا ط کو رفع کیا اور کچھ نئے الفا ظ بھی اِس میں شا مل کئے ۔ ایک بات جو بلا شک و شبہ طے ہے اور جس پر تمام مورخین و محققین متفق ہیں وہ یہ کہ ہندوستان کے طول و عرض میں صدیوں سے نمو پانے والی اُردو زبان کو باقاعدہ ایک باوقار ادبی و علمی اور شاہی زبان ہو نے کی سند اور خلعت فاخرہ مغل شہنشاہ شہاب الدین شاہجہان کے دستِ مبا رک سے عطا ہو ئی۔اِس کا نا م اُردو بھی مستقل و مشہو ر ہوا ا ور مقا م و مرتبہ بھی قا ئم ہو گیا۔لہٰذا ’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آ زاد ؔ لکھتے ہیں۔ ’’اتنی با ت ہر شخص جا نتا ہے کہ ہما ری زبان برج بھا شا سے نکلی ہے۔رفتہ رفتہ اپنا رنگ نکھار تی اور سنوارتی ہے۔حتیٰ کہ شا ہجہان کے دور میں جب تارا اقبال کا عر وج پر تھا۔شا ہجہا ن آ با د نئے شہرکا نام،قلعہ دِلّی کا نا م قلعہ معلی اور یہا ں کی مقبول زبا ن کا نام اُردو معلی تجویز ہوا ۔‘‘ دلی کے اُردو زبان کے قدیم شعراء میں شاہ مبارک آبرو،خان آرزو، شا ہ حا تم ؔ ، میاں مضمونؔ، مرزا مظہر جانِ جا ناںؔ ،نا ٓجیـؔ ،تا بآں ،یکر نگ ،فغاں ــؔ کے معتبر نام شا مل ہیں۔