لاہور: (حسن علی خلجی) جب صدر ٹرمپ نے پورے اعتماد سے کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے تو کچھ لمحوں کے لیے دنیا کو لگا جیسے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی کہانی کا اختتام ہو گیا ہو لیکن شاید یہ کہانی کا انجام نہیں بلکہ ایک نئے باب کی شروعات تھی کیونکہ اسی لمحے مغربی میڈیا میں سوالات کا ایک سیلاب امڈ آیا، کیا واقعی ایران کی جوہری صلاحیت خاکستر ہو چکی ہے؟ یا صدر ٹرمپ محض اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اور ڈرامہ رچا رہے ہیں؟
یہ سوال صرف رپورٹرز یا تجزیہ نگار نہیں اٹھا رہے بلکہ خود برطانوی اور امریکی انٹیلی جنس کے کچھ گوشے بھی شبہات کا اظہار کر رہے ہیں، خاص طور پر فردو کی جوہری تنصیب جو پہاڑ کے اندر بنائی گئی ہے اس پر حملے کی جو سیٹلائٹ تصاویر سامنے آئی ہیں وہ ضرور کچھ تباہی کی نشان دہی کرتی ہیں لیکن دوسری طرف انہی تصاویر میں یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ حملے سے ایک دن قبل بڑی تعداد میں ہیوی ٹرک وہاں سے کچھ لے جا رہے تھے، اگر ایران نے اپنا قیمتی یورینیم پہلے ہی منتقل کر دیا تھا تو پھر یہ کامیاب حملہ کس چیز پر ہوا؟
امریکی میڈیا میں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ایران کے پاس نہ صرف ایک بلکہ شاید کئی خفیہ جوہری تنصیبات ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو کچھ علم نہیں، ان ہی شبہات کو تقویت دیتے ہوئے ایک سابق اسرائیلی انٹیلی جنس افسر سیما شائن نے کہا ہے کہ ایران نے حملے سے پہلے ہی اپنا 400 کلوگرام افزودہ یورینیم خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا تھا جو دس جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے اور ان کے بقول تہران کے پاس نہ صرف مواد موجود ہے بلکہ وہ جدید سینٹری فیوجز بھی رکھتا ہے جن سے اس مواد کو ہتھیاروں کے معیار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف ایران نے بظاہر غیر متوقع حد تک خاموش اور سوچا سمجھا ردعمل دیا، کوئی شدید جوابی حملہ نہیں نہ ہی کوئی کھلی دھمکی، صرف یہ موقف کہ تنصیبات خالی تھیں نقصان محدود ہے اور جو کچھ تھا وہ محفوظ مقام پر ہے، ایک ایرانی اہلکار نے تو یہاں تک کہا کہ آپ جس یورینیم کو ڈھونڈ رہے ہیں وہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس کے مقام کا علم خود اعلیٰ ایرانی حکام کو بھی نہیں۔
صدر ٹرمپ نے جیسے ہی ان دعوؤں کو "جعلی خبریں" قرار دیا نیویارک ٹائمز نے ایک اور خبر بریک کر دی، ایران نے ایک نئی خفیہ جوہری تنصیب تیار کر لی ہے جو سطح زمین سے ایک میل بلند پہاڑ کے نیچے قائم کی گئی ہے۔
یہاں جدید ترین سینٹری فیوجز کی تنصیب کا عمل شروع ہونے والا ہے اور اگر یہ دعویٰ سچ ہے تو ایران صرف تین ماہ میں وہ مقدار تیار کر سکتا ہے جس سے تقریباً 19 ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ایران پہلی بار اتنی بڑی چالاکی دکھا رہا ہے، 2009 میں امریکی اسرائیلی سائبر حملے میں جب ایران کے پانچ ہزار سینٹری فیوجز میں سے ایک ہزار تباہ ہوئے تو دنیا نے سمجھا کہ یہ جوہری سفر رک جائے گا مگر ہوا اس کے برعکس، ایران نے زیادہ جدید نظام نصب کیے اور 2015 میں طے پانے والا جوہری معاہدہ اسے وقتی طور پر پابندیوں سے نکال لایا، پھر صدر ٹرمپ آئے معاہدے کو "تباہ کن" قرار دیا، الگ ہو گئے اور یوں ایران کو بھی ایک بار پھر ہاتھ کھولنے کا موقع مل گیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ امریکی بمبار طیارے گزر چکے ہیں، میزائل داغے جا چکے ہیں، تصویریں آ چکی ہیں، بیانات جاری ہو چکے ہیں لیکن سب سے بڑا سوال باقی ہے، وہ یورینیم کہاں ہے؟ وہ سینٹری فیوجز کہاں ہیں؟ وہ خفیہ تنصیب جسے ایرانی حکومت ابھی تک "راز" رکھے ہوئے ہے وہ کہاں واقع ہے؟
کہا جاتا ہے کہ جنگوں کا اصل میدان توپوں یا بموں سے نہیں بلکہ ذہنوں اور میزوں پر لڑا جاتا ہے اور بظاہر اب ایران بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
پاسداران انقلاب کو مکمل اختیارات مل چکے ہیں، معائنہ کاروں کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ہے اور سفارتی دروازے محض رسمی بیانات کی حد تک کھلے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ دنیا ایک ایسی جوہری دھند میں داخل ہو چکی ہے جہاں نظر کچھ نہیں آتا لیکن ہر قدم پر خطرہ موجود ہے، اس دھند کے پار اگر کچھ دکھائی دیتا ہے تو وہ ہے بے یقینی، سازش اور طاقت کے نئے توازن کی ایک خطرناک کہانی جس میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ دونوں کو آخرکار کیا حاصل ہوگا؟ اور دنیا کو کیا نقصان؟
یہی وہ سوال ہے جس کا جواب شاید ابھی کسی کے پاس نہیں اور جب تک یہ جواب نہیں ملتا ایران کا یورینیم صرف ایک دھند میں چھپا ہوا ایٹمی راز ہی رہے گا۔