رویوں کی اصلاح ضروری

Published On 10 October,2025 10:40 am

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ عالم اسلام بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے، بہت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ موجودہ سیاسی کشمکش میں دانستہ یا نادانستہ طور پر اسلامی تہذیب اور مشرقی روایات کو بُری طرح فراموش کیا جا رہا ہے۔

حالات اس موڑ پر آچکے ہیں کہ سیاسی قائدین سے لے کر کارکنان تک (سوائے چند ایک کے) سب کے سب نفرت، دشمنی، الزام تراشی، بہتان بازی، گالم گلوچ، ہتک عزت پر اتر آئے ہیں، عدم برداشت کے ماحول نے علاقائی بلکہ گھریلو نظام زندگی کو تباہ کر دیا ہے، ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اہلیان پاکستان کے سامنے اس حوالے سے چند اسلامی تعلیمات کو پیش کیا جائے تاکہ انہیں اپنے رویوں کی اصلاح کا موقع ملے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ آپ کو جو سیاسی پارٹی اسلام اور آئین پاکستان کے حق میں مخلص اور وفادارنظر آتی ہے اس کا کھل کر ساتھ دیں، یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن چند باتوں کا بطور خاص خیال کریں۔

ذاتیات نہیں نظریات

سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں صحیح دلائل کی بنیاد پر اختلاف کا مدار کسی کی ذات کے بجائے اس کے سیاسی نظریات کو بنانا چاہیے، اگر آپ کسی سیاسی لیڈر کے نظریات کو اسلام اور آئین پاکستان کے موافق سمجھتے ہیں تو اس کا ساتھ دیں اور اگر اسلام اور آئین پاکستان کے مخالف سمجھتے ہیں یا اس کی سیاسی پالیسوں کو ملک کے حق میں مفید کے بجائے نقصان دہ سمجھتے ہیں تو ہرگز اس کا ساتھ نہ دیں، یہ آپ کی دیانت پر منحصر ہے کہ کس کو اسلام اور آئین پاکستان کے حق میں مفید سمجھتے ہیں اور کس کو مفید نہیں سمجھتے۔

پردہ پوشی کریں

موجودہ سیاسی کشمکش میں اپنی حریف سیاسی پارٹی کے قائدین و کارکنان میں سے کسی کی ذاتی عیوب اور اخلاقی کمزوریوں کو نہ اچھالیں بلکہ اگر کسی مسلمان بھائی کا ذاتی عیب نظر بھی آئے تو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کے بجائے چھپائیں، یہ اتنا عظیم کام ہے کہ اللہ کریم اس کے بدلے قیامت کے دن انسان کے اپنے گناہ لوگوں سے چھپالیں گے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپائے گا (اسے ذلت و رسوائی سے بچائے گا) تو اللہ کریم روز قیامت اس کے گناہوں کو چھپالیں گے‘‘ (صحیح مسلم: 4692)۔

پردہ دری سے بچیں

اس کا دوسرا پہلو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے ذاتی عیوب کی پردہ دری کرتا ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس دنیا میں گھر بیٹھے انسان کو رسوا فرما دیتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپالیں گے اور جو شخص لوگوں کی پردہ دری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کردیتا ہے‘‘(سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث: 2546)۔

سچ بولیں، جھوٹ سے بچیں

سیاسی کشمکش کے اس ماحول میں سب سے زیادہ سچ اور جھوٹ کے فرق کو جان بوجھ کر ختم کیا جا رہا ہے، حالانکہ سچ بولنا، سچ کا ساتھ دینا بہت بڑی نیکی اور مومن کی شان ہے جبکہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ کا ساتھ دینا گناہ ہے، اس سے بچنا اور رکنا ضروری ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سچائی ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے، بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صدیق بن جاتا ہے، جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے، بے شک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے، وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے (صحیح مسلم: 6803)۔

تمسخر، طعنہ زنی اور برے القابات سے بچیں

موجودہ حالات میں ہر دوسرا شخص ایک دوسرے کا تمسخر اڑا رہا ہے، لوگ آپس میں طعنہ زنی کر رہے ہیں اور ایک دوسروں کو برے القابات دے رہے ہیں، یہ انتہائی گھٹیا پن ہے، قرآن کریم نے اس سے سختی سے روکا ہے اور ساتھ میں دعوت فکر بھی دی ہے کہ جس مسلمان سے تم تمسخر کر رہے ہو سکتا ہے کہ وہ تم سے بہتر ہو، اسی طرح طعنہ زنی سے بھی روکا ہے اور برے القابات سے منع فرمایا ہے، ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں بعد میں ہم کسی سیاسی جماعت کے افراد ہیں، لہٰذا پارٹی کی وجہ سے اپنی زندگی کو کبیرہ گناہوں میں تباہ نہیں کرنا چاہیے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

مفہوم آیت: ’’اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو، ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے، اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں‘‘(سورۃ الحجرات، رقم الآیت: 11)

بدگمانی اور غیبت سے بچیں

سیاسی کشمکش میں بدگمانی(بلکہ بدزبانی)، عیب جوئی اور سیاسی حریفوں کی غیبت کرنا محبوب مشغلہ سمجھا جاتا ہے، ہر گلی محلے میں سیاسی تبصرے و تجزیے ہو رہے ہیں جن میں مذکورہ گناہ عام پائے جاتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم ان سے منع کرتا ہے۔

مفہوم آیت: ’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور کسی(کے عیب)کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو خود تم نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، بہت مہربان ہے‘‘ (الحجرات: 12)۔

لڑائی کے بجائے صلح کریں

سیاسی کشمکش میں ہر دوسرے گھر میں لڑائی جھگڑا پایا جا رہا ہے، رشتہ داروں سے بول چال ختم ہو رہا ہے، دوستی، دشمنی میں بدل رہی ہے، دوریاں بڑھ رہی ہیں، نفرتیں عام ہو رہی ہیں اور صلح کے دروازے بند ہوتے چلے جا رہے ہیں، قرآن کریم نے اہل ایمان کو آپس میں بھائی بھائی قرار دے کر ان کے درمیان صلح کرانے کا حکم دیا ہے۔

مفہوم آیت: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے‘‘( سورۃ الحجرات: 10)۔

حضرت ابو الدرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو درجہ میں نفلی روزے، نفلی نماز اور نفلی صدقے سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے، صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: ضرور بتایئے! آپﷺ نے فرمایا: وہ لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے، اس لئے کہ باہمی ناچاقی اور پھوٹ دین کو ختم کرنے والی چیز ہے۔ (جامع الترمذی: 2433)

سیاسی قائدین کی ذمہ داریاں

سیاسی کشمکش کے اس نقصان دہ ماحول میں سب سے بڑی ذمہ داری پارٹیوں کے قائدین پر عائد ہوتی ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی سے وابستہ افراد کی ذہن سازی کریں، انہیں اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کا وفادار بننے کا درس دیں، اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کارکنان کی اسلامی تہذیب اور اخلاقی اقدار کو داؤ پر نہ لگائیں، اپنے ہر کارکن کو اسلام اور آئین پاکستان کا وفادار بنانے اور اچھے اخلاق کا حامل مہذب شہری بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، کارکنان کو جذباتی بنا کر ملک میں افراتفری نہ مچائیں، پرامن احتجاج آپ کا حق ہے لیکن اس کی آڑ میں خون خرابے نہ کرائیں، وطن عزیز اس کا بالکل متحمل نہیں ہے۔

سیاسی کارکنان کی ذمہ داریاں

اس کے بعد سیاسی شعور رکھنے والے کارکنان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خوب سمجھ داری سے کام لیں، حقائق کو دیکھیں، پارٹی دستور کو پڑھیں، اپنے لیڈر کی پالیسیوں کو اچھی طرح جانچیں پرکھیں، اگر وہ واقعی اسلام اورآئین پاکستان کے حق میں مفید ہیں تو دیانت داری کے ساتھ اس کا ساتھ دیں اور اگر حقائق اس کے برعکس ہوں تو جرم کا ساتھ دینے کے بجائے حق کا ساتھ دیں۔

صحافی برادری کی ذمہ داریاں

آخر میں اپنی صحافی برادری کی خدمت میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ غیر جانبدار ہو کر دیانت کے ساتھ اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دیں، صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینے کے جرم سے باز رہیں، ملک میں پھیلی ہوئی انارکی کو کم کرنے کی کوشش کریں، اسے مزید بڑھاوا نہ دیں، مختلف پارٹیوں کی ترجمان شخصیات کو آپس میں نہ لڑائیں۔

پوری اسلامی دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، عالمی دنیا کے سامنے اسے مذاق نہ بنائیں، اس کی ایسی تصویر پیش نہ کریں، جس سے عالم اسلام کی امیدیں ٹوٹنا شروع ہو جائیں، اپنے ملک کی مثبت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں، یہ ملک ہم سب کا ہے، اسی کی بقا اور استحکام میں ہماری بقا اور استحکام ہے۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔