اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان افغانستان سے متعلق ایک نیو نارمل سیٹ کر چکا جس کے بعد پاکستان میں افغانستان کے ذریعے ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے، واضح ہو چکا ہے کہ فتنہ الخوارج کے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کو افغان طالبان کی سہولت کاری مل رہی ہے۔
پاکستان نے صرف سرحدی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کابل اور قندھار میں افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے ٹھکانوں پر سٹرائیکس کی ہیں، 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس کے بعد پاکستان کے مغربی بارڈر پر صورتحال کشیدہ ہوگئی،، 14 اور 15 اکتوبر کی درمیان شب سے ایک مرتبہ پھر پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔
اگرچہ پاکستان کی جانب سے کئی مرتبہ افغان سرزمین سے ہونے والی جارحیت کا جواب دیا گیا مگر اس مرتبہ صورتحال بہت مختلف ہے، پاکستان کے جوابی وار نے نہ صرف افغان طالبان بلکہ بھارت کو بھی بڑا واضح پیغام دیا ہے، افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحد پر حملہ اس وقت کیا گیا جب طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر متقی بھارت کے دورے پر تھے۔
پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے، پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔
ان کی جانب سے بھارتی سپورٹ کی بھی نفی کی جاتی تھی مگر 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پیدا ہونے والی صورتحال نے طالبان حکومت کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا ہے، یہ واضح ہوگیا کہ افغانستان نے یہ حملہ بھارت کو خوش کرنے کیلئے کیا اور یہ بھی واضح ہوا کہ فتنہ الخوارج اور تحریک طالبان افغانستان دراصل اکٹھے ہیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔
11 اور 12 اکتوبر کی نصف شب ہونے والے افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے حملے میں پاکستان کے 23 بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 29 جوان زخمی ہوئے، جواب میں پاکستان نے افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کی ایسی درگت بنائی کہ 200 سے زائد طالبان و دہشت گرد جہنم واصل ہوئے، ان کی 21 پوسٹوں پر پاکستان نے عارضی قبضہ کیا، انہیں غیر مؤثر یا تباہ کر دیا، پاکستان نے جو نیو نارمل سیٹ کیا ہے اس کے مطابق اب جب بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوگی پاکستان افغان طالبان سے شکایت کرنے کی بجائے خود ان سے نمٹے گا۔
یہی وجہ ہے کہ چار روز قبل پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی قیمت چکانا ہوگی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا ہے، 15 اکتوبر کو پاک افغان سرحد کراس کر کے پاکستان آنے کی کوشش کرنے والے 37 سے زائد خوارج ہلاک ہوگئے، یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا صرف اُن ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا جو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہے تھے۔
اتوار کے روز ترجمان پاک فوج کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیے میں آئندہ کا لائحہ عمل واضح کر دیا گیا تھا جس کے مطابق موجودہ کارروائیاں ہو رہی ہیں، اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان کے عوام ایک تعمیری سفارتکاری اور بات چیت کو لڑائی پر ترجیح دیتے ہیں مگر ہم افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کو برداشت نہیں کریں گے۔
اعلامیے میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ طالبان کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب ان کے وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے، بھارت دہشت گردی کا سب سے بڑا سپانسر ہے، طالبان حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ خطے کے امن و استحکام کیلئے فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوری اور قابل تصدیق ایکشن لے جو اُن کی سرزمین سے آپریٹ کر رہے ہیں، بصورت دیگر پاکستان اپنے عوام کے دفاع کے حق کیلئے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے اقدامات جاری رکھے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستان کی جانب سے شروع کی گئی کشیدگی پاکستان کے اس مؤقف کی توثیق کرتی ہے کہ طالبان حکومت دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہی ہے، آئی ایس پی آر کا اعلامیہ بڑے واضح انداز میں بتا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اب پہلے جیسا ٹریٹ نہیں کرے گا، افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو اپنا دہرا معیار ختم کرنا ہوگا اور فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
اس صورتحال میں پاکستان دو اہم فیصلے کر چکا ہے کہ اب اگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان کو خود کارروائی کا حق حاصل ہے، دوسرا پاکستان افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغانیوں کے انخلا سے متعلق سخت پالیسی نافذ کرنے جا رہا ہے، پاکستان میں امن و استحکام کیلئے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے، پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میز بانی کی ہے۔
دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا جس کے بعد افغان مہاجرین کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا، غیر قانونی مقیم مہاجرین کے کچھ عناصر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں، ستمبر 2023ء سے اب تک پاکستان چھوڑنے والے غیر قانونی افغان باشندوں کی تعداد 14 لاکھ 47 ہزار تک پہنچ چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق اب بھی پاکستان میں 40 لاکھ غیر قانونی مہاجرین اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز مقیم ہیں جن کی واپسی کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان طالبان کی درخواست پر گزشتہ شام چھ بجے سے اگلے 48 گھنٹوں کیلئے عارضی طور پر سیز فائر کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس دوران دونوں اطراف تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مگر قابلِ حل مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان کی حکومت پر دباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ کمزور ہوتی جارہی ہے۔
طالبان کی لیڈرشپ نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائیوں کا سامنا کرنا انہیں مزید کمزور کرتا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان میں رجیم چینج کی باتیں زور پکڑنے لگی ہیں۔