عمران عباس چدھڑ … تھیلیسیمیا سے لڑنے والا پولیس افسر

Published On 11 October,2025 06:23 pm

ماسکو: (شاہد گھمن) زندگی میں کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں جن سے ملاقات وقت کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے، برسوں بیت جائیں مگر ان کی باتوں کی خوشبو، ان کے خلوص کی روشنی، ان کی انسان دوستی کا لمس ذہن پر نقش رہتا ہے۔

ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ انہی نایاب شخصیات میں سے ایک ہیں، ایک ایسا انسان جس نے اپنی وردی کو صرف اختیار کی علامت نہیں بلکہ خدمتِ انسانیت کا استعارہ بنا دیا۔

میری ان سے شناسائی آج کی نہیں، ایک پرانی داستان ہے، یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب 1998 میں وہ تھانہ گرجاکھ، گوجرانوالہ کے ایس ایچ او تھے، میں صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ان دنوں اکثر ان سے ملا کرتا تھا، وہ وقت گزر گیا مگر ان کی شخصیت کا خلوص اور انسانیت کا رنگ دل پر نقش ہو گیا۔

آج جب میں ماسکو میں ہوں اور وہ گوجرانوالہ کے ڈی ایس پی ہیں، تب بھی ہمارے درمیان وہی تعلق، وہی احترام، وہی اپنائیت قائم ہے، جب بھی پاکستان جاتا ہوں، ان سے ملاقات ضرور ہوتی ہے اور ہر ملاقات میں ایک نئی بات، ایک نیا جذبہ سننے کو ملتا ہے۔

وہ فائلوں کے درمیان بیٹھے بھی انسانوں کے دکھ درد پر بات کرتے اور اکثر کہتے  اگر قانون لوگوں کے کام نہ آئے تو پھر وردی پہننے کا مقصد ہی کیا رہ جاتا ہے؟ ، یہ ایک عام جملہ نہیں تھا بلکہ ایک نظریہ تھا جو آج بھی ان کی زندگی کا محور ہے۔

وقت گزرتا گیا، منصب بدلے، ذمے داریاں بڑھتی گئیں، مگر عمران عباس چدھڑ کا انسان دوستی کا جذبہ پہلے دن جیسا برقرار رہا، آج وہ گوجرانوالہ کے ڈی ایس پی ہیں، مگر ان کے دل میں وہی نرم گوشہ، وہی انسانیت کی حرارت زندہ ہے،چند ماہ قبل جب میں پاکستان گیا اور ان سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے بڑے سکون مگر جذبے بھرے لہجے میں ایک نئی مہم سندس فاؤنڈیشن کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے کی تحریک کا ذکر کیا۔

یہ ادارہ تھیلیسیمیا اور خون کی دیگر موروثی بیماریوں میں مبتلا معصوم بچوں کے علاج کے لیے زندگی کی کرن ہے، مگر خون کی کمی ان کی سب سے بڑی آزمائش ہے، یہی وہ لمحہ تھا جب عمران چدھڑ نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود ایک غیر معمولی عزم کے ساتھ یہ مشن سنبھالا یعنی زندگی بانٹنے کا مشن۔

آج ان کے زیرِ انتظام گوجرانوالہ کے مختلف تھانوں، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر بلڈ ڈونیشن کیمپ لگائے جا رہے ہیں، پولیس اہلکار، طلبہ، تاجر، عام شہری سب اس کارِ خیر میں شامل ہیں، یہ صرف ایک مہم نہیں بلکہ ایک تحریک بن چکی ہے۔

ان کے خلوص سے متاثر ہو کر اب تک ہزاروں خون کے عطیات جمع ہو چکے ہیں، جن کے ذریعے تھیلیسیمیا کے سیکڑوں بچے نئی زندگی پا چکے ہیں، یہ منظر دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ محض ایک پولیس افسر نہیں بلکہ ایک انسانی تحریک ہیں۔

ان کی اپیل پر لوگ نہ صرف خون دیتے ہیں بلکہ خود کو اس خدمت کا حصہ سمجھتے ہیں، پولیس کی وردی میں ملبوس افسر جب اپنا بازو بڑھا کر خون دیتا ہے تو عوام کے دل میں یقین پیدا ہوتا ہے کہ محافظ صرف قانون کا نہیں، انسانیت کا بھی ہے۔

عمران چدھڑ اکثر اپنے ویڈیو پیغامات میں کہتے ہیں  کسی کے چند قطرے خون، کسی بچے کی پوری زندگی بن سکتے ہیں ، یہ جملہ ان کے ایمان کی صورت اختیار کر چکا ہے، وہ جانتے ہیں کہ تھیلیسیمیا کا مرض صرف جسمانی نہیں، معاشرتی بھی ہے ایک ایسی خاموش آزمائش جو والدین کے دلوں کو روز زخمی کرتی ہے، ان کے نزدیک خون کا عطیہ دینا محض انسانی فریضہ نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور وہ اس عبادت کو اجتماعی سطح پر زندہ کر رہے ہیں۔

سندس فاؤنڈیشن کے نمائندوں کے مطابق ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ کے تعاون سے صرف خون ہی نہیں، بلکہ امید اور شعور بھی پھیل رہا ہے، لوگ اب سمجھنے لگے ہیں کہ خون دینا کمزوری نہیں، طاقت ہے کیونکہ یہ کسی اور کو زندگی دیتا ہے، بچوں کے والدین اکثر کہتے ہیں کہ چدھڑ صاحب نے ہمارے بچوں کو صرف خون نہیں دیا، جینے کی وجہ دی ہے۔

پاکستان میں اکثر پولیس کے بارے میں منفی تاثر سننے کو ملتا ہے، مگر عمران چدھڑ جیسے افسر اس تاثر کو بدل رہے ہیں، ان کے کام سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وردی میں صرف اختیار نہیں، احساس بھی ہوتا ہے، وہ اپنے عمل سے یہ سبق دے رہے ہیں کہ پولیس اور عوام کے درمیان رشتہ اعتماد اور محبت پر قائم ہو سکتا ہے، اگر نیت صاف ہو۔

انہوں نے اپنے ماتحت اہلکاروں میں بھی یہ احساس پیدا کیا کہ ہر تین ماہ بعد خون عطیہ کرنا ایک سماجی ذمے داری ہے، ان کے ایک ماتحت نے مجھے بتایا کہ سر کہتے ہیں اگر ہم زندگی نہیں دے سکتے تو کم از کم کسی کی زندگی بڑھا تو سکتے ہیں، یہی وہ سوچ ہے جو معاشروں کو بدلتی ہے۔

عمران عباس چدھڑ کا خواب ہے کہ گوجرانوالہ کے ہر تھانے میں مستقل بلڈ کیمپ قائم کیا جائے، جہاں اہلکار اور شہری بآسانی خون عطیہ کر سکیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ ماڈل پورے پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں پھیلایا جائے، ان کا ماننا ہے کہ اگر پولیس خدمت کا مرکز بن جائے تو معاشرے سے بے حسی، نفرت اور فاصلے خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

میں جب بھی ان سے بات کرتا ہوں، ان کے لہجے میں طاقت نہیں، نرمی محسوس ہوتی ہے، وہ باتوں سے نہیں، عمل سے متاثر کرتے ہیں، ان کے نزدیک قانون کی حفاظت اور زندگی کی حفاظت ایک ہی چیز ہے دونوں کا مقصد انسان کو محفوظ رکھنا ہے، مجھے ان پر فخر ہے، یہ فخر کسی دوستی کا نہیں، ایک جذبے کا ہے، اس یقین کا کہ ابھی بھی ہمارے معاشرے میں وہ لوگ موجود ہیں جو اختیار کو خدمت میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے ان گلی کوچوں میں جہاں کبھی پولیس کی سختی کا سایہ محسوس ہوتا تھا، آج انسانیت کی خوشبو ہے، ہر بچے کی مسکراہٹ، ہر خون کے عطیے کی بوتل، ہر والدین کی دعا سب گواہی دیتے ہیں کہ ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ نے اپنی وردی سے نہیں، اپنے دل سے خدمت کی ہے۔

عمران عباس چدھڑ ان چند نایاب لوگوں میں سے ہیں جن کی زندگی فرض سے آگے بڑھ کر خدمت بن جاتی ہے، وہ وردی میں چھپا وہ دل ہیں جو کسی بچے کی مسکراہٹ کے لیے دھڑکتا ہے، کسی ماں کے آنسو پونچھنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔

انہوں نے دکھا دیا کہ پولیس صرف قانون کی طاقت نہیں، احساس کی زبان بھی بن سکتی ہے، وہ قطرہ قطرہ زندگی بانٹ رہے ہیں اور ان کا ہر عطیہ، ہر پیغام، ہر کوشش اس بات کا اعلان ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔