سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب حدیبیہ کیس ہر نقطہ نظر سے ختم اور ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔
لاہور: (تجزیہ: سعد رسول ) سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب حدیبیہ کیس ہر نقطہ نظر سے ختم اور ماضی کا حصہ بن چکا ہے ، تا ہم نیب کے پاس اب ایک ہی چارہ کار ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کیخلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرے ، لیکن نظرثانی کی اس درخواست کے ذریعے نیب کو کسی کامیابی کی توقع نہیں کرنی چاہیے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ نیب مقررہ مدت کے دوران اپیل دائر کرنے میں تاخیر کا کوئی قانونی، عملی یا حقیقی جواز پیش نہیں کرسکا، یہی نہیں بلکہ لاہور ہائیکورٹ نے حدیبیہ کیس کو خارج کرنے کا جو فیصلہ دیا تھا نیب اس فیصلے میں کسی سقم یا قانون سے کسی انحراف کی نشاندہی تک نہ کرسکا، اب اگر نیب سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر بھی کرے تو ظاہر ہے کہ حقائق تو تبدیل نہیں ہوسکتے۔
اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد نیب کے دیگر جاری ریفرنسز پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت جو دیگر ریفرنسز زیر سماعت ہیں ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ان ریفرنسز کا تعلق ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور عزیزیہ ملز کے علاوہ دیگر آف شور کمپنیوں کیلئے "منی ٹریل" سے ہے، شریف فیملی پہلے ہی تسلیم کر چکی ہے کہ یہ اثاثے اس کی ملکیت ہیں، اس لئے شریف فیملی کیلئے یہ ثابت کرنا لازم ہے کہ اس نے یہ اثاثے جائز اور قانونی رقم سے خریدے بصورت دیگر اسے قصور وار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ چونکہ حدیبیہ کیس میں نیب اپنے موقف کو درست قرار نہیں دے سکا اس لیے شریف فیملی اپنے دیگر اثاثوں کی منی ٹریل بآسانی ثابت کر دے گی۔
یہاں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلے میں حدیبیہ کیس کو ناکافی شواہد اور مقررہ میعاد گزرجانے کے بعد اپیل دائر کرنے کی وجہ سے خارج کیا ہے ،لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے نیب میں موجود دیگر کیسز (بشمول ایم ایل اے دستاویزات ) اور ان کے شواہد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔