حدیبیہ پیپر ملز کیس کی دوبارہ تحقیقات نہیں ہو سکتیں، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

Published On 05 Jan 2018 04:33 PM 

اسلام آباد: (دنیا نیوز) 36 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا اقدام درست تھا۔ ریفرنس کا مقصد فریقین کو دباؤ میں لانا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس کا 36 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حدیبیہ ریفرنس ایک گمنام شکایت پر بنایا گیا۔ اٹک قلعہ میں لگائی گئی عدالت تک عوامی رسائی نہیں تھی۔ چیئرمین نیب کو اٹک قلعہ میں احتساب عدالت لگانے کا اختیار نہیں تھا۔ الزامات کی وضاحت کیلئے ملزمان کو نیب نے کبھی نہیں بلایا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 92-1991ء میں منی لانڈرنگ ہوئی۔ پاکستان میں 2007ء کے دوران منی لانڈرنگ کو جرم قرار دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کے غیر ملکی اکاؤنٹ کی رقم پر غیر قانونی ہونے کا الزام نہیں لگایا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا اقدام درست تھا۔ ریفرنس کا مقصد فریقین کو دباؤ میں لانا تھا۔ منی لانڈرنگ کا ٹرائل احتساب عدالت نہیں سیشن کورٹ میں ہوتا ہے۔

حدیبیہ کیس کا تفصیلی فیصلہ یہاں پڑھیں

حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے تفصیلی فیصلے کے مطابق اسحاق ڈار کا بیان سیکشن 164 کے تحت ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ مجسٹریٹ اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اسحاق ڈار کا بیان چیئرمین نیب یا احتساب عدالت کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا تھا۔ اسحاق ڈار کے بیان کو جواز بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ اسحاق ڈار کا بیان اپنی وضاحت سے متعلق ہے۔

 

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 164 کا بیان ریکارڈ کرتے وقت ملزمان کی موجودگی ضروری ہے۔ 164 کے بیان میں ملزمان کو گواہ پر جرح کا حق ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار کا بیان ملزمان کے سامنے ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔ فیصلے کے مطابق ریاست کی تحویل میں موجود ملزمان کو جلا وطن کرنا جرم ہے۔ ریاستی تحویل میں موجود ملزمان کو جلا وطن کرنے کی سزا 10 سال قید تک ہے۔