سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک سے

Published On 29 Jan 2018 11:19 AM 

چھٹی کے روز صبح سویرے دھندلا لاہور ڈاکٹر شاہد مسعود کو بانہیں پھیلائے سپریم کورٹ رجسٹری میں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ کورٹ روم نمبر ایک سے متصل بار روم میں درجنوں وکلاء اور صحافی نو بجے ہی بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔

لاہور: ( اجمل جامی ) چھٹی کے روز صبح سویرے دھندلا لاہور ڈاکٹر شاہد مسعود کو بانہیں پھیلائے سپریم کورٹ رجسٹری میں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ کورٹ روم نمبر ایک سے متصل بار روم میں درجنوں وکلاء اور صحافی نو بجے ہی بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور کبھی سرگوشیوں اور کبھی برملا با آواز بلند پوچھ رہے تھے کہ "کی بنے گا اج ڈاغٹر دا؟" کوئی ثبوت وی ہیگا ایہدے کول یا ایویں ہوائیاں نیں؟۔ ڈاکٹر صاحب بھی وقت سے پہلے نو بجے کے آس پاس ہی اسی روم میں آفتاب باجوہ، اظہر صدیق، عبداللہ ملک اور دیگر وکلاء کے ہمراہ بیٹھے چائے نوش فرماتے رہے۔ اچانک سنا کہ موصوف فرما رہے ہیں، "یہ کون ہیں فرانز ک والے ؟۔۔ انہیں نہیں معلوم ان کا ٹاکرا بیک وقت ایک صحافی اور ڈاکٹر سے ہو گیا ہے"۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب تحقیقاتی صحافت پر وکلاء کو گپ شپ کے انداز میں لیکچر دیتے رہے۔ پونے دس بجے کورٹ روم نمبر ون کچھا کھچ بھر گیا۔ دس بجے کورٹ روم کا پراجیکٹر آن کر دیا گیا۔ معلوم ہوا آج بھی ڈاکٹر صاحب کی کوئی ویڈیو پیش کی جائے گی۔ کاشف عباسی، حامد میر، فہد حسین، منصور علی خان، سعد رسول، مظہر عباس، اسد اللہ خان، اسد کھرل، عارف نظامی، نسیم زہرہ، مجیب الرحمن شامی، آئی اے رحمان، چوہدر ی غلام حسین، آفتاب اقبال، ضیا شاہد، کامران خان، میاں عامر محمود، سہیل وڑائچ، عارف حمید بھٹی، اسلام آباد سے عاصمہ شیرازی، قیوم صدیقی، عمران وسیم، اے وحید مراد، عقیل عباسی، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، ڈی جی فرانزک ڈاکٹر طاہر اشرف، آئی جی پنجاب، سلمان اکرم راجہ اور دیگر جید وکلا ء و صحافی کمرۂ عدالت میں اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے خاکسار بار بار ڈاکٹر صاحب کا چمکتا چہرہ دیکھتا رہا، ان کے تاثرات بتا رہے تھے جیسے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ، دیکھا! ناچیز نے کیسی رونق برپا کر رکھی ہے۔ بیٹھنے کی ترتیب میں چیف جسٹس کے سامنے بائیں جانب اور ہماری دائیں جانب دوسری قطار کے تقریباً وسط میں ڈاکٹر صاحب تشریف فرماتھے ، روایتی کریم کلر کی قمیض اور ڈارک کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر صاحب کے دائیں بائیں کاشف عباسی، مظہر عباس اور فہد حسین تشریف رکھتے تھے۔ اسی قطار میں تین کرسیاں چھوڑ کر منصور علی خان بھی پائے گئے۔ ایک سو سڑسٹھ اکاؤنٹس کی خبر دینے والے اسد کھرل قدرے تاخیر سے آئے، آتے ہی پراجیکٹر کے پاس کھڑے ہو کر مقبول عوامی رہنما کی طرح عوام الناس کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے رہے۔ کمرۂ عدالت کے عین وسط میں روسٹرم کے بالکل قریب سرکاری وکلاء کا بینچ تھا، جہاں نظر دوڑائی تو تین چار بھاری بھرکم کتابیں پڑی دکھائی دیں۔ دو کتابیں جانی پہچانی سی معلوم ہوئیں، ایک میڈیا اینڈ ماس کمیونیکیشن لاز ان پاکستان اور دوسری میڈیا لاز اِن پاکستان تھی۔ دس بج کر ستائیس منٹ پر جسٹس منظور ملک تشریف لائے، ساتھ ہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی تشریف لے آئے اور اسی ترتیب سے اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ چیف جسٹس نے تمام صحافیوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ سب کی موجودگی سے آج فائدہ اٹھائیں گے، کیا معلوم رات ہو جائے۔ تشکر کا اظہار جناب چیف جسٹس پوری سماعت کے دوران بار بار کرتے رہے۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے زینب قتل کیس میں پیش رفت بارے استفسار کیا۔ چند لمحوں بعد انہوں نے سرکاری وکیل عاصمہ حامد سے پوچھا ڈاکٹر شاہد مسعود کیس کا کیا بنا۔؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ 24 جنوری کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوؤں کو ٹیک اپ کیا، پروگرام کی سی ڈی اور ٹرانسکپرٹ تک کا بغور معائنہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘‘بینک اکاؤنٹس والی بات کی کیا تفصیلات ہیں؟’’ جس پر جواب میں سرکاری وکیل نے کہا کہ اس سلسلے میں رپورٹ آپ کی خدمت میں جمع کرا دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے تو مجھے دو نام بھی دئیے تھے، ایک وفاقی وزیراور ایک اور وزیر کا۔ دونوں ناموں کی پرچی میری جیب میں موجود ہے۔ شاہد مسعود صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے آبجیکشن کرنے لگے تو چیف جسٹس نے انہیں اوور رول کر دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن گویا ہوئے اور کہا کہ یہ نام ایک وفاقی وزیر اور ان کے جاننے والے کسی بااثر شخص کے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے برملا کہا تھا کہ حکومت مسلسل جھوٹ بول رہی ہے، یا حکومت ثابت کرے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ یہ شخص عمران علی اکیلا نہیں بلکہ اس کے پشت پناہ مضبوط لوگ ہیں، حتیٰ کہ بین الاقوامی مافیا کا ذکر بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر شاہد مسعود جے آئی ٹی میں پیش ہوئے ؟ ان کا چینل کونسا ہے؟، کئی ایک آوازوں میں نیوز ون کا نام پکارا گیا۔ وکیل نے جواب دیا کہ ڈاکٹر صاحب نوٹس کے باوجود جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ یہ سینتیس اکاؤنٹس ہیں؟ سرکاری وکیل نے اسٹیٹ بنک، فرانزک لیب، ڈی آئی جی اور دیگر اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ کے صفحہ نمبر پانچ پر اس سوال کا جواب دستیاب ہے یہ اکاؤنٹس سرے سے ہی وجود نہیں رکھتے۔ چیف جسٹس نے پھر پوچھا ‘‘یہ موبائل اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟’’ عدالت کو بتایا گیا کہ یہ ایزی پیسہ کے سلسلے میں استعمال ہوتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے پھر ڈی جی پنجاب فرانزک لیب سے روسٹرم پر بلاتے ہوئے پوچھا کہ یہ وہی ملزم ہے جو قصور میں زینب سے پہلے پیش آئے سات آٹھ کیسز میں ملوث ہے ؟ جواب میں ڈاکٹر طاہر اشرف نے تصدیق کی کہ جی ہاں! ملزم عمران ہی ہے ۔ اس پر عدالت نے ہدایات جاری کیں کہ چالان پیش کریں اور جلد از جلد اس کیس کو حتمی انجام تک پہنچایا جائے۔ پھر جناب چیف جسٹس زینب کے والد حاجی امین سے مخاطب ہوئے اور انتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ہم سب بہت دکھی ہیں، آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ اس موقع پر جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دئیے کہ ڈی این اے کے ثبوت بہت مضبوط ہوتے ہیں، کورٹ کا وقت ضائع نہ کیا جائے، ایسی تٖفصیلات ایکسپوز کرنے سے گریز کریں جس سے کسی فریق کو فائدہ یا نقصان ہو۔ چیف جسٹس نے تمام اداروں بالخصوص پولیس حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ وہ حاجی امین کے ساتھ انتہائی احترام کے ساتھ پیش آئیں اور حاجی صاحب کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ اسی موقع پر عدالت نے حاجی امین اور ان کے وکیل آفتاب باجوہ پر کورٹ روم سے باہر میڈیا سے گفتگو کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی اور حاجی امین سے کہا کہ آپ اس معاملے میں احتیاط برتیں اگر شکایت ہو تو ہم سے رجوع کریں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کرنے سے پہلے جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دئیے کہ کورٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ثبوت پر چلنا ہوتا ہے، اور ثبوت وہ ہیں جنہیں قانون مانے گا۔ کچھ معاملات عوامی تاثرات پیدا کرتے ہیں، وہ ثبوت لائیں جو قانونی طور پر قابل قبول ہوں۔ ڈاکٹر صاحب روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں ان کے پروگرام اور سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی میڈیا ٹاک کو پراجیکٹر پر چلانے کی ہدایت کی۔ ڈاکٹر صاحب روسٹرم پر کھڑے تھے اور پراجیکٹر پر چلنے والی اپنی پریس کانفرنس دیکھنے کے بجائے ججز کو دیکھتے رہے۔ معزز جج صاحبان البتہ نوٹس لیتے ہوئے دکھائی دئیے۔ جسٹس منظور ملک ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر مسکرائے اور پانی پینے میں مصروف ہو گئے۔ پراجیکٹر پر ڈاکٹر صاحب سولہ لاکھ پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز اور ملزم علی عمران کے درجنوں اکاؤنٹس کے دعوے کو دُہرا رہے تھے۔ شاہد مسعود کا کلِپ ختم ہوتے ہی چیف جسٹس صاحب ان سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ جو باتیں آپ نے کیں ان کے ثبوت بھی آپ ہی کو دینا ہوں گے۔ آپ نے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے احکامات پربنی۔ آپ کا انٹرویواس رات بارہ بجے سنا، صبح ساڑھے آٹھ بجے آفس آیا، نو بجے نوٹ بنوایا اور سمن جاری کیا۔ اینگزائٹی تھی کہ اگر آپ کی باتیں سچ ہیں تو ایسے میں واقعی ملزم قتل ہو جائے گا۔ آپ برملا اپنے ڈسکورس پر قائم رہے اور اسے دُہراتے رہے۔ آپ کے پاس ان باتوں کے کیا ثبوت ہیں؟۔ شاہد مسعود صاحب نے جواب دینے کے بجائے عدالت سے ہی سوال پوچھ ڈالا کہ پہلے یہ بتائیں ان کے پاس کتنا وقت ہے؟ چیف جسٹس صاحب نے جواب دیا، رات آٹھ بجے تک وقت ہے ۔ لیکن آپ کو اپنی گفتگو میں ‘‘ریلی ونٹ’’ رہنا پڑے گا۔ یہ معاملہ خاصا ‘‘ناول’’ ہے۔ واضح نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ شاہد مسعود گویا ہوئے کہ جناب! اگر میں ڈی ٹریک ہوجاؤں تو روک دیجئے گا۔ مائی نیم اِز شاہد مسعود ، دو ہزار ایک میں پاکستان کے پرائیویٹ میڈیا سے میرے کیریئر کا آغاز ہوا ،جب میں لندن میں تھا۔ اس سے پہلے میں سندھ میڈیکل کالج سے گریجویٹ ہوا، فیلو شپ کے لیے باہر چلا گیا، میڈیا میں پہلا تعارف مظہر عباس سے ہوا۔ مظہر عباس صاحب کا نام ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں مجموعی طور پر چار بار استعمال کیا۔ لیکن مظہر صاحب کی جانب سے کسی موقع پر بھی انہیں تائید وصول نہ ہوسکی۔ پھر فرمایا کہ نائن الیون کے بعد اے آر وائی چینل کا آغاز ہوا اور میں اس کا پہلا ڈائریکٹر نیوز تھا اور یوں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا آغاز ہوا۔ یہ میری کوالیفکیشن ہے جج صاحب!، اپنی تعلیمی قابلیت کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ انٹرنیشنل ریلیشن اور سیکیورٹی اسٹڈیز میں بھی ڈپلومے رکھتے ہیں۔ افتحار چوہدری صاحب کے دور کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے کہ ان کے دور میں میں نے رات کے بارہ بجے ایک اہم بیپر (ٹی وی پر رپورٹ کرنا) دیا ۔ (اس بیپر میں ڈاکٹر صاحب نے خبر دی تھی کہ سرکار سپریم کورٹ کے بحال ہونے والے ججز کو فارغ کرنے جا رہی ہے )۔ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے مائیک آن کیا اور ریمارکس دئیے کہ ڈاکٹر صاحب بعد میں پتا چلا کہ جو خبر آپ دے رہے ہیں ویسی تو کوئی بات تھی ہی نہیں۔ میں خود ان ججز میں شامل تھا۔ آپ کا بیپر رات بارہ بجے نہیں سوا دس بجے کے قریب نشر ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جواباَ بولے کہ جی خبر غلط تھی لیکن اس کے اثراتِ ضرورت آنے والے وقت میں ظاہر ہوتے رہے۔

زینب قتل کیس پر دوبارہ بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میں بیرون ملک تھا، چا ر پانچ روز پہلے واپس آیا، وہاں بیرون ملک شام، لبنان اور ایسے کئی ممالک میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت ‘‘ڈیپ ویب’’ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکالیں تو فوری نوٹس آجا تا ہے، چائینز ہیکر اگر کسی اکاؤنٹ سے پیسے نکالیں تو نوٹس نہیں آتا، کیوں کہ یہ لوگ ڈیپ ویب کے ذریعے ہیکنگ کرتے ہیں۔ جے آئی ٹی کو علم ہی نہیں تھا میں کہاں ہوں، نوٹس کہاں بھیجنا ہے، مجھے کسی نے کال نہیں کی، پرسوں شام البتہ مجھے پہلا نوٹس ملا۔ ڈاکٹر صاحب کے بیان میں ربط کوشش کے باوجود بھی نہ مل سکا۔ (قارئین سے معذرت کہ ایسا نہیں ہم ایڈیٹنگ کے ذریعے تحریر کو دانستہ بے ربط بنا رہے ہیں بلکہ خدا گواہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے تمام تر بیانات ایسے ہی تھے جیسے رپورٹ ہو رہے ہیں)۔ بہر حال۔ اسی گفتگو میں ڈاکٹر صاحب ڈیپ ویب سے کراچی، لینڈ مافیا اور راؤ انوار تک جا پہنچے اور پھر قصور واقعہ کی جے آئی ٹی میں شامل ڈی پی او قصور اور ڈی پی او شیخوپورہ اور دیگر اعلیٰ ترین شخصیات پر خوب گرجے برسے۔ پھر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیپ ویب پر مختلف ہیش ٹیگ کے ساتھ کیسے بچوں کی ویڈیوز تلاش کی جاتی ہیں، دعویٰ کیا کہ زینب کی کلائیاں کاٹی گئیں۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈاکٹر صاحب کو روکا اور استفسار کیا کہ آپ نے جو کہا آپ اس پر قائم ہیں۔؟ شاہد مسعود نے کہا کہ جی بالکل۔ ساتھ ہی انہوں نے قصور کے قصبے حسین خان والا میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا حوالہ دیا۔ پوچھا کہ ملزم نے بچی کو کہاں رکھا؟ وہ جگہ کیوں نہیں بتائی جا رہی؟ چیف جسٹس نے ڈاکٹر صاحب کو ہدایت کی کہ آپ اپنا ڈسکورس جسٹی فائی کریں۔ آپ کی دلیل مفروضہ ہے، جو باتیں آپ کر رہے ہیں یہ انوسٹی گیشن کے معاملات ہیں۔ آپ فی الحال اپنی باتوں کو ثابت کریں۔ اس سے پہلے کہ شاہد مسعود مزید کچھ بولتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا۔ کیا ملزم کے نام پر یہ اکاؤنٹس ہیں؟ شاہد مسعود نے کہا کہ مجھے پانچ منٹ دئیے جائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ سوال اٹھایا کہ ملزم کے دستیاب ڈیٹا میں ایسا کچھ نہیں۔ شاہد مسعود نے جواب دیا کہ میں بلنٹ بات کروں گا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ لوگ (ادارے ، جے آئی ٹی) کور اپ کر رہے ہیں، یہ لوگ اس گینگ کا تحفظ کر رہے ہیں جنہیں انہوں نے پالا ہے۔ ڈی این اے یا پوسٹ مارٹم ڈاکٹرز نہیں بلکہ خاکروب کیا کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو روک کر تنبیہ کی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں اس سے پراسیکیوشن کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے ؟ آپ صحافی ہیں اور پھر بھی ایسے تبصرے کر رہے ہیں؟ آپ کو ہوش ہے ؟ آپ صرف اپنے الزامات کی حد تک بات کریں۔ اگر آپ کو جے آئی ٹی پر اعتبار نہیں تو میں نئی جے آئی ٹی بنا دوں گا۔ یہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں یہ معاملے سے کیسے ریلیونٹ ہے ؟ شاہد مسعود نے کہا کہ بحیثیت ڈاکٹر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے خاکروب کرتے ہیں، ڈاکٹر محض دستخط کیا کرتے ہیں۔ اس موقع پر شاہد مسعود نے دوبارہ مظہر عباس کو مخاطب کیا کہ شاہد وہ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ کمرۂ عدالت میں شاید اسی کارن مسکراہٹوں کے تبادلے بھی ہوئے۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مائی ڈیئر برادر ! اپنے بیانات کی سچائی میں کچھ کہیں۔۔ شاہد مسعود پھر گویا ہوئے اور کہا کہ علی عمران وہ ملزم ہے ہی نہیں جس نے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اکاؤنٹس کی بات کریں۔ آپ یہ سب کیسے ثابت کریں گے ؟ شاہد مسعود نے ہاتھ جوڑ کر کہا یہ وہ شخص ہے ہی نہیں، اگر میری بات غلط ہے تو مجھے جیل میں ڈال دیں یا پھر میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ چیف جسٹس فورٍاً مخاطب ہوئے اور کہا کہ ‘‘جانے نہیں دوں گا’’۔ یہ میاں ثاقب نثار ہے ، میرا کام کرنے کا اپنا انداز ہے ، میرا مقصد صرف مفاد عامہ کے لیے کام کرنا ہے ۔ جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، آپ کو ثبوت دینا پڑیں گے ۔ تقریباً قہقہہ بلند کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا میں بھاگ جاؤں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نا جانے کس ترنگ میں تھے ، کہا میں راؤ انوار ہوں۔ اس موقع پر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ نان سیریس ہونے سے گریز کریں۔ پھر شاہد مسعود نے قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی پر اعتبار ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ ریمارکس دئیے کہ کیس انتہائی سادہ ہے ، آپ نے الزام لگایا، آپ ثابت کریں۔ آپ کے تبصرے نے ‘‘پینک’’ پیدا کیا۔ شاہد مسعود نے کہا آپ جے آئی ٹی بنا دیں، جس پر چیف جسٹس فوری طور پر مخاطب ہوئے اور کہا کہ اس کیس میں پہلے سے قائم جے آئی ٹی ختم کر رہا ہوں، ہم جے آئی ٹی بنار ہے ہیں، جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ کسی کے کہنے پر اب جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا۔ جوڈیشل کمیشن کا مطلب ہے کھوہ کھاتا۔ سلیم شہزاد کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ اس موقع پر انہوں نے حامد میر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ بھی پیش ہوئے تھے ناں کمیشن میں میر صاحب! آئی ایس آئی شامل تھی یا امریکی، آپ نے خود کہا کچھ واضح نہیں۔ جے آئی ٹی بنے گی۔ تحقیقات جے آئی ٹی ہی کرے گی، شاہد مسعود صاحب آپ کے لیے ہم انتہائی اچھی شہرت کے حامل شخص کا انتخاب کر رہے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن صاحب آپ کی جے آئی ٹی کی سربراہی کریں گے ۔ دو نام مزید ایک دو روز میں فائنل کر لیں گے ۔ اس موقع پر سرکاری وکیل نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے انتہائی سنجیدہ لہجے میں سوال پوچھا کہ بتائیں و ہ سینتیس اکاؤنٹس کہاں ہیں؟ جواب میں شاہد مسعود نے کہا کہ و ہ اکاؤنٹس جن کی چھان بین اسٹیٹ بنک کر رہا ہے ، ایسا اسٹیٹ بنک جس نے اسحاق ڈار کو صادق اور امین قرار دے رکھا تھا۔ چیف جسٹس صاحب!یہ لوگ مجھے پھانسی لگا دیں گے ۔ چیف جسٹس صاحب نے شاہد مسعود کو یقین دلایا کہ تسلی رکھیں آپ کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے ۔ اگر آپ کی بات درست ثابت ہوگئی تو یہی عدالت آپ کو ایمانداری اور سچائی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گی اور اگر آپ کی باتیں غلط ثابت ہوئیں تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ پینک پھیلانے والے شخص کے ساتھ پھر کیا ہوگا۔ قارئین !عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پونے تین گھنٹے تک جاری اس سماعت میں پانچ چھے بار یہی ریمارکس دُہرائے ۔ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پی بی اے کے چیئرمین اور ‘‘دنیا میڈیا’’ گروپ کے چیف ایگزیکٹو میاں عامر محمود کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی اور استفسار کیا کہ وہ اس مدعے پر عدالت کی کیسے رہنمائی کر سکتے ہیں۔ میاں عامر محمود کا بیان مختصر مگر جامع تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک عام شہری ہونے کے ناطے بچیوں کا باپ ہوں، قصور کی آٹھ بچیوں کو ریاست انصاف نہیں دے سکی۔ ہم نے کچھ لوگوں کو اجازت دی کہ وہ متاثرہ ماں باپ کو بتائیں کہ ان کی مظلوم بچیوں کی فلمیں بھی دنیا بھر میں دیکھی جا رہی ہیں۔ ہم کورٹ روم میں ہنس رہے تھے اور میں زینب کے باپ کو دیکھ رہا تھا۔ زینب کے باپ سے پوچھیں ان پر کیا بیت رہی ہے ۔ ایک شخص بغیر ثبوت کے کہہ رہا ہے کہ زینب کی فلمیں چل رہی ہیں۔ حاجی امین صاحب پر کیا بیت رہی ہو گی؟ ہم ایسے لوگوں کو معاشرے کے منہ پر تمانچہ مارنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟۔

میاں عامر کے بعد عدالت نے سی پی این کے صدر ضیا ء شاہد کو روسٹرم پر طلب کیا۔ ضیا ء شاہد نے کہا کہ اکاؤنٹس والی خبر پر مجھے علم نہیں البتہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ قصور میں بچوں کی ویڈیوز بنانے کا دھندا کیا جاتا ہے ، اس معاملے کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے سرگودھا اور چونیاں میں پیش آئے واقعا ت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چند سو روپوں کے عوض بچوں کی ویڈیو بنا کر بیچی جا رہی ہیں۔ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں لوگوں سے سنا کہ مجرموں کو مقامی سیاستدانوں اور پولیس افسران کی پشت پناہی حاصل رہی۔ وزیر قانون نے ٹی وی پر آ کر کہہ دیا کہ وہ زمین کا معمولی جھگڑا تھا ،میڈیا اچھال رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ با اثر لوگ اور اراکین اسمبلی آٹھ سال سے ملزمان کو تحٖفظ دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ضیا ء شاہد کی بات کاٹ کر پوچھا ‘‘اکاونٹ والی بات پر آپ کیا کہیں گے ؟’’ ضیا شاہد نے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ پھر چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا۔ اس مسئلے پر جے آئی ٹی بننی چاہیے ؟ ضیا شاہد نے اثبات میں سر ہلایا اور شکریہ کہہ کر چل دئیے ۔ اگلی باری آئی اے رحمان کی تھی۔ روسٹرم پر آتے ہی معز ز چیف جسٹس نے ان سے پوچھا، ہاؤ آر یو؟۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد چیف جسٹس نے خواہش کا اظہار کیا کہ کاش وہ تمام صحافی جو کورٹ روم میں موجود ہیں انہیں چائے کا کپ پیش کر سکتے ۔ اس پر شکریہ ادا کرتے ہوئے آئی اے رحمان صاحب نے انتہائی اہم جملہ ادا کیا۔ میرے خیال میں یہ جملہ پوری کارروائی کا سب سے اہم جملہ تھا۔ انہوں نے عرض کی کہ جناب چیف جسٹس ! چائے نہیں انصاف چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی صحافی بارے اظہار رائے کرتے ہوئے میں شرماتا ہوں ۔ افسوس ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہ اگر ثابت ہو جائے کہ یہ بات (شاہد مسعود کا دعویٰ) سچ ہے تو احترام اور عزت کے ساتھ انہیں سرٹیفکیٹ دیا جائے گا، اگر معاملہ غلط ثابت ہوا تو پھر کیا ہونا چاہیے ؟ سزا کیا ہونی چاہیے ؟ اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ آج کل تو قانون ٹی وی پر ڈسکس ہوتا ہے ۔ آئی اے رحمان نے اس پر تاسف کا اظہار کیا اور اپنا مدعا ختم کرتے ہوئے چل دئیے ۔ پھر باری آئی مجیب الرحمن شامی کی۔ چیف جسٹس اور شامی صاحب کے درمیان سلام کا تبادلہ ہوا تو شامی صاحب کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایسے کسی معاملے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے ۔ اب اس معاملے کی تحقیقات ہو کر رہنی چاہئیں۔ چیف جسٹس نے ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس دئیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم حدود سے تجاوز کر رہے ہوں؟ کورٹ روم میں مسکراہٹیں بکھریں تو شامی صاحب نے جواب دیا کہ جناب چیف جسٹس صاحب اگر بات آپ کی حدود کی ہے تو پھر ‘‘اسکائی اِز دی لِمٹ’’۔ اور اس بابت ہمیشہ آپ کی حمایت کی ہے ۔ بہتر ہے آپ جے آئی ٹی بنائیں اور تحقیقات کرائیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس صاحب دوبارہ مائیک پر مخاطب ہوئے اور ریمارکس دئیے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کا دعویٰ درست ہے تو انہیں انعام ملے گا، بصورت دیگر سزا بھی مثالی ہو گی۔ سزا پر تین آپشن ہو سکتے ہیں۔ ایک ‘‘یہ معاملہ اینٹی ٹیررازم کا بھی ہوسکتا ہے ۔ دو، توہین عدالت بھی لگ سکتی ہے ۔ تین، سیکشن ایک سو ترانوے کے تحت کارروائی’’۔ ( سیکشن ایک سو بانوے میں ایسی شہادت یا بیان جس سے کارروائی متاثر ہو کا ذکر ہے ، جب کہ ایک سو ترانوے میں اس کی سزا بابت تفصیلات درج ہیں جو تین سال تک ہو سکتی ہے ۔) پھر باری آئی عارف نظامی صاحب کی، جنہوں نے آتے ہی کہا کہ آپ (عدالت) نے جو اب تک کہہ دیا وہ کافی ہے ، میرے لیے آج کا دن باعث شرم ہے ۔ اسٹوری دینے کے بعد آج بحث ہو رہی ہے کہ خبر غلط ہے یا درست۔ خیال تھا کہ صحافت آزاد ہو کر ترقی کر رہی ہے ۔ شاہد مسعود کو پہلے بتانا چاہیے تھا کہ حقائق کیا ہیں، ہم آج اس پر جے آئی ٹی بنا رہے ہیں۔ مقام افسوس ہے ۔ ایجنڈے سے بالا تر ہو کر صحافت کی جائے تو شرمندگی نہیں اٹھانا پڑتی۔ کوڈ آف ایتھیکس انسان کے اندر ‘‘بِلٹ اِن’’ ہوتے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کی ذمے داری ہے کہ وہ ریٹنگ کی دوڑ سے نکل کر ذمے دارانہ صحافت کو پروان چڑھانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

معزز چیف جسٹس نے اس موقع پر جنگ کے میر شکیل الرحمن کو یاد کیا جو کمرۂ عدالت میں موجود نہیں تھے ۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ میر شکیل الرحمن کو آنا چاہیے تھا، ہماری درخواست کو کمانڈ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ عدالت میں اگلا نام کامران خان صاحب کا پکارا گیا، جنہوں نے انتہائی نپی تلی گفتگو کرتے ہوئے معاملے کی سنجیدگی کی جانب مسلسل توجہ مرکوز رکھی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس آج ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ پاکستانی صحافت کو نیا رخ دے ۔ افسوس ہے کہ آج ہمارا میڈیا کہاں آن کھڑا ہوا ہے ۔ ٹی وی جرنلزم کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سر اٹھانے کی ہمت نہیں رہتی۔ جو جی میں آتا ہے کہہ دیا جاتا ہے ، پگڑیاں اچھل رہی ہیں، اس لیے کہ کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔ چیف جسٹس صاحب! آپ کو یاد ہو گا آپ کی تقرری سے پہلے آپ کے بارے کیا کچھ کہا گیا، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے کیا کچھ نہ کہا گیا؟ جب ملک میں چیف جسٹس، چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیر اعظم تک کی عزت محفوظ نہیں تو عام آدمی کی عزت کیسے بچے گی؟ یہ کیفیت ناقابل بیان ہے ۔ آج تو ہم اس مسئلے کے لیے مل بیٹھے ہیں لیکن اس سے پہلے تین سو پینسٹھ دن اور اس سے پہلے کے دن طوفان بدتمیزی برپا رہا۔ قوم ہیجان کی سی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ کسی عدالت نے ایک یا دو کیسز کے علاوہ کبھی کسی اینکر کی غیر ذمے داری کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ ہم اپنے ایک ایک حرف کے جواب دہ ہیں اور ہمیں جواب دہ ہونا چاہیے ۔ ہم نے کمرۂ عدالت میں بیٹھے محسوس کیا کہ کامران خان صاحب کی گزارشات کو پوری عدالت نے انتہائی توجہ سے سنا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے بار بار محترمہ نسیم زہرہ اور عاصمہ شیرازی کا ذکر کیا ۔ نسیم زہر ہ نے آتے ہی کہا کہ پاکستانی میڈیا دل اور دماغ پر اثر انداز ہو رہا ہے ، اُمید ہے آپ انصاف کریں گے ۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا حوالہ دیا جو برسوں پہلے ایاز امیر صاحب کے ہمراہ ہوئی۔ اور کہا کہ نسیم زہرہ صاحبہ! آپ کی صحافت کا آغاز اخبار سے ہوا، مجھے یاد ہے آپ ذمے دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں، ایسی غلطی جس کا ہم ذکر کررہے ہیں، آپ سے نہیں ہو سکتی۔ جس پر نسیم زہرہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ جناب چیف جسٹس غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے ، مجھ سے بھی ہو سکتی ہے ۔ میرے بھائی پائلٹ ہیں، میں ان سے اکثر سوال کرتی ہوں ہنگامی صورت حال میں کئی ہزار فٹ بلندی پر کس کی زیادہ فکر ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیشہ پہلی فکر مسافروں کی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی ہمیں پہلی فکر اپنے ناظرین اور قارئین کی ہونی چاہیے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سچ کی صورت میں سرٹیفکیٹ دیں گے ، جھوٹ کی صورت میں کچھ سزا تو ہونی چاہیے نا! نسیم زہرہ نے مؤدبانہ طریقے سے گزارش کی کہ مائی لارڈ ہم سے نہ پوچھیے کہ کیا سزا ہونی چاہیے ، سزا قانون میں موجود ہے ، اسی کے تحت فیصلہ کیجئے ۔ عارف حمید بھٹی صاحب کی باری آئی تو انہوں نے اپنی گزارشات کا آغاز انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جملہ آگے پیچھے ہو جائے تو مائنڈ نہ کیجیے گا۔ آپ نے تین سزاؤں کا ذکر کر کے ڈر ا دیا، میرا بی پی کم ہو کر رہ گیا ۔ یہ شاہد مسعود کی بات نہیں،اور پھر یہاں سے بھٹی صاحب جذباتی ہوتے چلے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کے مافیا کی خبر گیری بھی کی جائے ، ان لوگوں سے حساب مانگا جائے جنہوں نے بلیک منی کو وائٹ کیا، یہ لوگ لینڈ مافیا ہیں۔ معاملہ ڈی ٹریک ہوتے دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پانچ دس منٹ میں اپنی بات مکمل کریں۔ بھٹی صاحب نے مطالبہ کیا کہ آپ نے جن لوگوں کو روسٹرم پر بلایا ان سے ان کے اثاثوں کا حساب مانگیں۔ یہ لوگ سالوں پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ حساب مانگا جائے ۔ یہ صحافت نہیں کمرشلزم کر رہے ہیں۔ شاہد مسعود سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب نے پریس کانفرنس میں جھوٹ کے انبار لگا دئیے ۔ معاملہ سینتیس اکاؤنٹس کا نہیں، وہاں قصور میں بے گناہ لوگ پولیس مقابلے میں مار دئیے گئے ، پولیس نے چالان تک پیش نہیں کیے ۔ صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ، ویج بورڈ ایوارڈ بیس سال ہو گئے نافذ نہیں ہو رہا۔ اس پر چیف جسٹس نے مظہر عباس صاحب سے استفسار کیا کہ کیا ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل نہیں ہوا؟ بھٹی صاحب نے کہا کہ صحافی کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے ، لیبر لا ء کا کہیں نفاذ نہیں ہوتا، پانچ بچوں کا باپ عام صحافی تیس ہزار میں کیسے گزار ا کرے ؟ ایک پروگرام کو لے کر نہ بیٹھا جائے ، پوری صحافت کو دیکھا جائے کہ کون کس ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ مجھے ٹاک شو میں کسی کی تذلیل کا حق نہیں لیکن میرا حق ہے کہ آج مجھے یہاں سنا جائے ۔ صحافتی مافیا کا بار بار ذکر کرتے ہوئے بھٹی صاحب نے یہ بھی اقرار کیا کہ ان کے پاس مافیا کے خلاف ثبوت تو نہیں البتہ وہ با خبر ہیں کہ کب کب کس نے کیسے کیسے مال پانی بنایا۔

بھٹی صاحب نے عدالت کی توجہ جڑانوالہ میں (ن) لیگ کے حالیہ جلسے کی جانب بھی مبذول کرائی کہ اس جلسے میں سابق وزیر اعظم نے کھلے عام عدلیہ کی توہین کی، شاہد مسعود کو نوٹس دیا گیا لیکن نواز شریف کو کون نوٹس دے گا؟ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب نوٹس لینا ہو گا لیں گے ، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم باخبر ہیں، درست وقت پر درست فیصلے کریں گے ۔ بھٹی صاحب نے غالباً یہ تک کہہ دیا کہ سابق وزیر اعظم عدلیہ کہ ماں بہن ایک کر رہے ہیں۔ پھر چوہدری غلام حسین صاحب روسٹرم پر آئے ۔ کہا معاشرہ درندوں کے رحم و کرم پر ہے ، لوگوں کو بتائیں وہ اپنے بچوں کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑیں؟ شاہد مسعود نے غلط کیا یا صحیح۔ صحافی کو رگڑا نہ دیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ان (شاہد مسعود) کی خبر پر انہیں بلایا، کیوں کہ معاملہ ملزم عمران کی زندگی کو لاحق خطرات کا تھا۔ آپ لوگوں نے شاہد مسعود کو جھوٹا ثابت کرنا شروع کر دیا ہے ۔ حامد میر صاحب نے کہا کہ آپ نے ہم سب کو یہاں بلا کر بہت اچھا کیا، اصل میں تو شاہد مسعود نے خود اپیل کی کہ نوٹس لیا جائے ۔ آپ نے نوٹس لیا، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی خبر کی صداقت پر قائم ہیں۔ اگر خبر درست ہے تو آپ بجا طور پر انہیں سرٹیفکیٹ دیں ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ غلط ہونے کی صورت میں؟ حامد میر نے کہا کہ ظاہر ہے پھر سزا ملنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ انفرادی نہیں ،پوری میڈیا انڈسٹری کا ہے ۔شاہد مسعود دو ہزار ایک میں ڈائریکٹر نیوز بنائے گئے ، یہ نہیں دیکھا گیا کہ ان کا بیک گراؤنڈ صحافت سے ہے یا نہیں، یہی نہیں بلکہ یہاں تو کئی مالکان کا بیک گراؤنڈ بھی صحافت سے نہیں ۔ ہم نے 2012 ء میں درخواست دی کہ اینکرز اور مالکان کا احتساب کیا جائے اورصحافتی ضابطۂ اخلاق ترتیب دیا جائے ۔یہ کیس اب بھی چل رہا ہے ، ڈیڑھ برس پہلے اس کیس کی آخری سماعت ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ ایڈیشنل رجسٹرار سے چیک کر لیں ہم نے یہ کیس اگلے ہفتے سماعت کے لیے پانچ رکنی بینچ کے سامنے لگا دیا ہے ۔ شاہد مسعود بارے گزارشات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا آپ نے تین آپشن دیئے ، چوتھے آپشن کے طور پر ایک موقع اور دے دیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ معافی کا دروازہ کھلا ہے ، دیکھتے ہیں کس حد تک صدق دل سے انکساری اور عاجزی کے ساتھ معافی مانگی جاتی ہے ۔ تردیدکافی نہیں، پھر تو کام ہی چھوڑ دینا چاہیے ۔ معافی کا ایک وقت اور موقع ہوتا ہے ۔ پھر بعد میں معافی کا موقع بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔ موقع آج ہے ۔ حامد میر نے کہا کہ اگر دروازے کھلے ہیں توشاہد مسعود معافی مانگ لیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ موقع تو آج ہی ہے پھر!۔ اس موقع پر چیف جسٹس او رحامد میر نے شاہد مسعود کے حالیہ پروگراموں میں ‘‘انہیں نہیں چھوڑوں گا’’ جیسے جملوں پر از راہ تفنن تبصرہ بھی کیا۔ عاصمہ شیرازی نے اپنی گزارشات میں لفظ کی حرمت کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم خوش قسمت تھے کہ جنہیں ایسے سینئرز کی سرپرستی حاصل رہی جنہو ں نے مبینہ، امکان، شبہ ، ملزم اور مجرم جیسے لفظوں کے مفہوم سمجھاتے ہوئے میدان صحافت میں ہماری تربیت کی۔ بدقسمتی ہے کہ اب اس پیشے میں ایسے لوگ آ گئے ہیں جنہوں نے ‘‘صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ’’ والا کام کر دکھا یا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ شاہد مسعود پارلیمنٹ ہاؤس آتے تو لوگ ان کا ہاتھ چومتے تھے ۔ جو بھی ہوا وہ نفسیاتی دہشت گردی کے مترادف ہے ، جو کسی نہ کسی شکل میں ہم اپنے بچوں تک منتقل کر رہے ہیں۔ یہ خوف میں نے بحیثیت ماں اپنے بچوں تک منتقل کیا ہے ۔ اس نفسیاتی دہشت گردی کا علاج ہونا چاہیے ۔ اداروں میں ایڈیٹر کا کردار کہاں دکھائی دیتا ہے ؟ ایجنڈا اور پروپیگنڈا پر کام ہورہا ہے ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میڈیا ریفارمز کا معاملہ الگ کیس میں دیکھا جا رہا ہے ۔ فی الحال شاہد مسعود کا معاملہ زیر بحث ہے ۔ چیف جسٹس بار بار استفسار کرتے رہے کہ اگر شاہد مسعود کے الزامات درست نہیں ثابت ہوتے تو پھر کیا کیا جائے ؟ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ زینب کا کیس میڈیا کی تطہیر کا باعث بننا چاہیے ۔ شاہد مسعود اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں بولے کہ یہ میری تذلیل ہو رہی ہے ۔ اسی اثناء میں کاشف عباسی کو موقع دیا گیا ،جنہوں نے کہا ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، ایک بندے کا مسئلہ نہیں ، سسٹم کا مسئلہ ہے ۔ ریٹنگ کے لیے سنسنی پھیلائی جاتی ہے ۔ شاہد مسعود پر پابندی لگا دی گئی تو پھر کوئی اور آجائے گا اور وہ بھی ریٹنگ کی دوڑ میں مصروف ہو جائے گا۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن گویا ہوئے اور کہا کہ آپ اندازہ لگائیں کہ شاہد مسعود کے تبصرے پرچیف جسٹس کے دماغ پر کیا بیتی، ایسے میں عام آدمی کے ساتھ کیا گزری ہو گی؟۔ کاشف عباسی نے کہا کہ جناب! ایک واقعہ پر کوئی مثال نہیں بننی چاہیے ۔

چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری جان! مثال بنی تو پھر کوئی دوسرا شاہد مسعود ایسے نہیں کر پائے گا۔ یہ مثال ہم نہیں بنا رہے ۔ یہ مثال خود ہمارے پاس آئی ہے ۔ شاہد مسعود نے خود اپنے آپ کو پیش کیا۔ اگلی باری آفتاب اقبال کی تھی جنہوں نے ماسوائے ایک آدھ جملے کے پوری تقریر انگریزی زبان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک بدل رہا ہے ، قوم بدل رہی ہے ، اس کی نشانی یہاں دیکھی جاسکتی ہے ، شاہد مسعود کا معاملہ انتہائی دلچسپ ہے ،کارروائی پورا دن چلنی چاہیے ، خواہش ہے کہ میں خودایک شو ریٹائرڈ ججز اور میڈیا کے دانشوروں کے ساتھ اسی موضوع پر کروں۔ چیف جسٹس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ پھر آپ میری ریٹائرمنٹ کا انتظار کر لیں۔ آفتا ب اقبال نے مزید کہا کہ مجھے شاہد مسعود بے حد پسند ہیں حالاں کہ ان کے کوئی صحافتی کوائف دستیاب نہیں۔ بدقسمتی سے ان کی شخصیت میں عجب مسئلہ ہے اور اب اس مسئلے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک ایسا بلنڈر کیا گیا جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے ۔ سہیل وڑائچ صاحب آئے تو چیف جسٹس نے برملا کہا یہ میرے پسندیدہ صحافی ہیں۔ وڑائچ صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ اور سچ کی سزا ہے ، لیکن کسی ایک جھوٹ کے نام پر آزادیٔ صحافت بند نا کی جائے ۔ کچھ ایسا نہ کریں جس سے میڈیا کی آزادی کو نقصان پہنچے ۔ قانون کی سزا سے پہلے ایک وارننگ دی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے تو موقع دے رکھا ہے ۔ سہیل وڑائچ نے کہا ہم نے تو شاہد مسعود سے درخواست کی ہے لیکن وہ نہیں مان رہے اور پھر کمرۂ عدالت میں زور دار قہقہوں کی گونج سنائی دی۔ جیو کے صحافی دوستوں نے بارہا ایسا گراؤنڈ بنانے کی کوشش کی جس پر کھڑے ہو کر شاہد مسعود آج معافی مانگ لیتے تو شاید معاملہ تھوڑے میں ٹل جاتا ۔ حتیٰ کہ کارروائی ختم ہونے کے بعد بھی حامد میر شاہد مسعود کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ، لیکن شاہد مسعود کسی اور مخمصے میں الجھے دکھائی دئیے ۔ بہر حال سہیل وڑائچ صاحب کی گزارشات جاری تھیں اور آزادیٔ رائے پر قدغن کا مدعا زیر بحث تھا کہ چیف جسٹس انتہائی سنجیدہ ہوئے اور ریمارکس دئیے کہ ہم قطعا آزادیٔ صحافت پر قدغن نہیں لگنے دیں گے ۔ سہیل وڑائچ نے فوراً بہت اہم سوال گزارش کے طور پر پوچھ ڈالا۔ عرض کی ‘‘جناب جمہوریت کو تو کوئی خطرہ نہیں ہے ناں؟’’ چیف جسٹس نے انتہائی سنجیدگی سے ریمارکس دئیے کہ ‘‘جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، جمہوریت نہیں تو میں بھی نہیں رہوں گا‘‘۔ مظہر عباس صاحب کی باری آئی تو انہوں نے صحافی کی بنیادی ذمے داریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سنہرے اصول کبھی نہیں بھولنے چاہئیں، جب بھی خبر بارے غلط فہمی ہو، بہتر ہے اسے چھوڑ دیا جائے یا خبر دینے سے پہلے مزید تحقیقات کی جائے ۔ جلد بازی میں خبر کی ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔ انہوں نے نائن الیون کے حادثے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی جڑواں ٹاورز سے جہاز ٹکرائے ، انہیں آفس میں ایک پریس ریلیز موصول ہوئی۔ لشکر طیبہ کے لیٹر ہیڈ سے جاری پریس ریلیز میں اس واقعہ کی ذمے داری قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت اے ایف پی کے ساتھ وابستہ تھے ۔ حافظ سعید اور ان کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ادارے کے بیور و چیف نے جلد بازی میں خبر شائع کر دی۔ خبر چند منٹوں میں دنیا بھر میں ٹاپ اسٹوری بن گئی۔ تھوڑی دیر بعد حافظ سعید کے ترجمان نے خبر کی مکمل تردید کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ لشکر طیبہ سے منحرف کچھ شر پسند عناصر کی پریس ریلیز تھی، جس کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ مظہر عباس نے ایک اور اہم نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ خبر کی تصدیق یا تردید صرف شاہد مسعود کی نہیں بلکہ ان کے چینل کے مالک کی بھی ذمے داری تھی۔ سلیم بخاری صاحب نے عرض کی کہ یہ پوری صحافتی برادری کی عزت کا سوال ہے ، خبر کا محدود پیمانے پر غلط ہونا سنبھالا جا سکتا ہے لیکن ایسی خبر جو شاہد مسعود نے دی ، اس کی محض تردید کافی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک نقطے پر فوکس کیا جانا چاہیے ، پنڈورا باکس نہ کھولا جائے ، قانون میں گنجائش ہے کہ معافی دی جا سکے ۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عادتاًٍٍ ملزم نہ ہو تو سزا کم ہو گی؟ بخاری صاحب نے کہا کہ آج بھی وقت ہے ڈاکٹر صاحب معافی مانگ لیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ واضح کیا کہ ہم شاہد مسعود کو پریشر میں نہیں لائیں گے کہ وہ معافی مانگیں۔ وہ آئیں اور ری بٹل میں بات کریں۔

فہد حسین صاحب نے بتایا کہ شاہدمسعود کے بیانیے کے تین حصے ہیں، ایک سینتیس اکاؤنٹس ، دو بین الاقوامی نیٹ ورک کی جانب اشارہ، تین وفاقی وزیر کا ملوث ہونا۔ اکاؤنٹس والا معاملہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں غلط ثابت ہو چکا ہے ، باقی دو نقطوں پر جے آئی ٹی میں وضاحت ہو جائے گی۔ اس طرح پہلی بار غلط خبروں کا تدارک ممکن ہو پائے گا۔ غلط خبروں کا رجحان اس لیے پروان چڑھا کہ کبھی کسی کو غلطی پر سزا نہیں ملی۔ سپریم کورٹ اب کی بار اسٹرٹیجک مداخلت کرے تا کہ میڈیا ریفارمز ہو سکیں۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر واضح کیا کہ فی الحال ایک نقطے پر فوکس کریں، میڈیا اصلاحات کا معاملہ ایک اور کیس میں زیر سماعت ہے ۔ پھر ہمارے دوست منصور علی خان کی باری آئی جنہوں نے گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاہد مسعود ان کے پروگرام میں ڈیڑھ گھنٹے تک مہمان کے طور پر تشریف لائے ، ان سے پچاس بار پوچھا گیا کہ کسی ایک اکاؤنٹ نمبر کی تفصیلات شیئر کر دیں۔ شاہد مسعود ایک بھی اکاؤنٹ نمبر دینے سے قاصر رہے ۔ نادیہ مرزا کے پروگرام میں جا کر ڈاکٹر صاحب نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف پروگرام کرنے کے لیے بدمعاشیہ نے اینکرز کو ڈھائی ارب روپے دئیے ہیں۔ اس روز ڈاکٹر صاحب کے مدعے پر دو پروگرام ہوئے ، ایک میں نے کیا ،دوسرا نسیم زہرہ نے ۔ ہماری بے عزتی ہو رہی ہے ، براہ مہربانی نسیم زہرہ اور میرا اکاؤنٹ چیک کیا جائے کہ ڈھائی ارب ان میں تو نہیں آئے ۔ اس موقع پر زینب کے والد کو افسردہ دیکھ کر اسلام آباد سے آئے صحافی عمران وسیم آبدیدہ ہو گئے ۔ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وسیم! مت رو بیٹے ! ہم سب زینب سے شرمندہ ہیں۔ چیف جسٹس کی آواز بھر آئی اوران کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ہم انصاف نہیں کر سکے ۔ ہم زینب کے والد کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بار بار معاملات کو ایکسپوز نہ کریں۔ خاموشی اختیار کریں۔ جو بھی مسئلہ ہو وہ جے آئی ٹی میں بیان کریں۔ سماعت کے اختتام پر زینب کے والد ان سے ایک خاص نمبر لے جائیں، جس کے ذریعے وہ اپنی شکایت چیف جسٹس تک پہنچا سکیں گے ۔ حاجی امین صاحب نے اس موقع پر چیف جسٹس سے ملزم کو سر عام سزا دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ آپ آنے والے دنوں کے لیے اس واقعہ کو مثال بنا دیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے پوچھا کہ بتایا جائے قصور کے ڈی ایس پی کا سروس پروفائل کیا ہے ؟ ڈی ایس پی عارف بشیر کس کی سفارش پر کئی سال قصور میں تعینات رہا۔ آئی جی پنجاب کسی قسم کا پریشر نہ لیں، ان کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہے ۔ ایک بار پھر شاہد مسعود روسٹرم پر بلائے گئے ۔ انہوں نے آتے ہی کہا کہ کوئی گستاخی ہوئی ہو تو معاف کر دیں۔ عدالت نے ہدایات دیں کہ آپ بے تکلف ہوجائیں ، آپ سے نا انصافی نہیں ہو گی۔ پانچ منٹ میں بات مکمل کریں۔ شاہد مسعود گویا ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تو خبر دی ہی نہیں تھی، خبر اُسے کہتے ہیں جو ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہو جائے ۔ میرے پاس اطلاع تھی ، اس اطلاع پر تحقیقات ہونی چاہیے ۔ وہ اطلاع خبر نہیں درخواست تھی۔ دوسری بار روسٹرم پر آتے ہی ڈاکٹر صاحب کا موڈ ‘‘دھبڑ دوس’’ ہوتا دکھائی دیا۔ موصوف فرینک ہوتے چلے گئے اور ربط کھو بیٹھے ۔ ‘‘دھبڑ دوس ’’ کی تکرار زیادہ سنائی دی۔ کہا دھبڑ دوس پر معذرت میری زبان پر چڑھ گیا ہے ، یہ اسٹوری ڈویلپونگ اسٹوری ہے ۔ آج پھانسی نہ لگوائیں۔ مجھے ویسے بھی اس پیمرا نے عادی قانون توڑنے والا قرار دے رکھا ہے ، جس کے قوانین میں نے ہی بنوائے ۔ چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دئیے کہ ڈاکٹر صاحب! اگر اب آپ ‘‘اوفینڈر’’ ثابت ہوئے تو آئندہ ‘‘اوفینس’’ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ جواب میں ڈاکٹر صاحب بس یہی کہتے سنائی دیئے ، کچھ بھی ہوجائے انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے جیل بھیج دیں، پابندی لگا دیں، انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ شاہد مسعود صاحب کی تمام باتیں اپنی جگہ، ایک دلیل میں البتہ وزن نظر آیا کہ میں غائب بھی ہو گیا تو کچھ عرصے بعد اگر کسی بچی کی ویڈیو منظر عام پر آگئی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے ۔۔؟ شاہد مسعود نے بار بار کہا کہ ملزم عمران کی جان کو خطرہ ہے ۔ یہ اسے مار دیں گے ۔ چیف جسٹس نے دو بار آئی جی سے گارنٹی لی کہ وہ ملزم کی جان کا تحفظ یقینی بنائیں، لیکن شاہد مسعود نے ایک بار پھر کہا کہ چیف جسٹس صاحب ملزم مارا جائے گا، اسے آپ اپنی تحویل میں لے لیں۔ یہ سنتے ہی کمرۂ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔ شاہد مسعود نے کہا کہ جے آئی ٹی نئی اور آزاد بنائیں مجھے موجودہ جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں، کیوں کہ یہی لوگ کیس میں فریق ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ انہوں نے اسی لیے انتہائی ایماندار آفیسر بشیر میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی قائم کی ہے جسے اوپن مینڈیٹ دیا جا رہا ہے ۔ شاہد مسعود نے پھر سے کہا کہ دو زندگیاں خطرے میں ہیں، ملزم عمران اور زندہ بچنے والی بچی کائنات۔ ساتھ ہی انہوں نے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ جناب میرا کیا بنے گا۔۔؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ پر سیکیورٹی لگا دی تو اس سے آپ کی سیکیورٹی مزید کمپرومائز ہو جائے گی۔ حاجی امین کے وکیل آفتاب باجوہ کونے میں بیٹھے برہم دکھائی دئیے کہ انہیں موقع نہیں دیا جا رہا ۔ چیف جسٹس نے انہیں بھی روسٹرم پر بلایا۔ آفتاب باجوہ نے دعویٰ کیا کہ بچی کے ملزم کے گرفتاری میں حاجی امین فیملی کا اہم کردار ہے ، مقامی پولیس افسران سے گلہ ہے ، جنہوں نے بروقت بات نہ سنی۔ آفتاب باجوہ نے تحقیقات حاضر سروس فوجی بریگیڈیئر سے کروانے کا مطالبہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیوں؟ بریگیڈیئر کو کیوں شامل کیا جائے ؟ جسٹس منظور ملک صاحب نے ریمارکس دئیے کہ آپ ذمے دار وکیل ہیں۔ سپریم کورٹ کا بینچ بیٹھا ہے ۔ تسلی رکھیں اور ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔ شاہد مسعود پھر بول پڑے کہ جناب میں نے بھی جے آئی ٹی کو پریشر میں قبول کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے لفظ پریشر استعمال کیا ہے ، آپ پھر روسٹرم پر آجائیں۔ شاہد مسعود نے کہا کہ سب نے میرا تماشا بنا رکھا ہے ۔ میری صحت پر اثر نہیں پڑے گا۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے روسٹرم پر آ کر آفتاب باجوہ کی شکایت کا جواب دیا۔ شاہد مسعود نے کہا کہ معاملے سے پنجاب پولیس کو باہر کیا جائے ،یہ فریق ہے ۔ انہوں نے ڈی این اے تبدیل کر دیا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تسلی رکھیں جے آئی ٹی آزادانہ بنے گی اور با اختیار ہو گی۔ سماعت تیسرے گھنٹے میں شامل ہونے والی تھی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود پھر اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے شکایات کرتے دکھائی دیئے ، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیٹھنے کا مشورہ دیا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جس طرح آپ شاوٹ کر رہے ہیں یہ عدالت کی عزت کے منافی ہے ۔ اس موقع پر محترمہ نسیم زہرہ کی نشاندہی پر معز ز عدالت نے صحافی مہمانوں کو کمرۂ عدالت سے باہر جانے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت جاری رکھی۔ باہر نکلتے ہی ڈاکٹر شاہد مسعود میڈیا مائیک اور کیمروں کے گھیرے میں آگئے ، جہاں سے حامد میر انہیں زبردستی سائیڈ پر لے گئے ، کورٹ روم کے احاطے میں دائیں جانب جاتے ہوئے شاہد مسعود صاحب خاکسار سے بغل گیر ہوئے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے میر صاحب کی جانب نا معلوم کونے کی جانب روانہ ہو گئے ۔ معلوم ہوا کہ میر صاحب کی بات ڈاکٹر صاحب کے پلّے نہیں پڑی۔