لاہور: (روزنامہ دنیا) دوسری عالمی جنگ میں جاپانیوں نے برطانوی کنٹرول میں رہنے والے ملک برما (میانمار) میں پیش قدمی کی جو بدھوں کے مندروں، گھنٹیوں، قلیوں اور بیش قیمت جواہرات کی سرزمین تھی۔ صدیوں تک یہ سرزمین چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کی جانکاہ رہی۔ دوسری عالمی جنگ میں اس نے ہمہ گیر اہمیت اختیار کر لی، کیوں کہ یہیں سے 800 میل لمبی سڑک نکالی گئی تھی جس کے ذریعے چین میں اہم سامان بھیجا جا رہا تھا۔ یہ برما کی مشہور سڑک تھی اور ان علاقوں کے اردگرد چکر لگاتی ہوئی جا رہی تھی جن پر جاپانی قابض تھے اور مقصود یہ تھا کہ اس سڑک کے راستے چین کا عقبی دروازہ کھلا رکھا جائے۔
اس کے تین طرف پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔ یہ برطانوی سلطنت کا ایک ایسا علاقہ تھا جس سے تغافل برتا گیا۔ ہندوستان کے ساتھ آمدورفت کے راستے نہ بنائے جا سکے، کیوں کہ اجارہ دار جہازی کمپنیوں کو یہ راستے اپنے مفاد کے خلاف نظر آ رہے تھے۔ سب سے بڑی بندرگاہ رنگون کی تھی جس نے کپلنگ کی کتاب ’’مانڈلے‘‘ کے ذریعے سے شہرت حاصل کی۔ اہل برما کو انگریزوں پر یا انگریزوں کے اس نعرے پر قطعاً اعتماد نہ تھا کہ ’’اطمینان سے بیٹھے رہو اور ہم پر بھروسا کرو۔‘‘ برما کے اندر جاپانیوں کے حامی پانچویں کالم نے حملے کے لیے راستہ بڑی محنت سے ہموار کر لیا تھا۔ ملایا کے ساتھ ہی جاپانیوں نے برما پر بھی حملہ کیا لیکن اول الذکر کے مقابلے میں آخرالذکر کی تسخیر نے زیادہ وقت لے لیا، کیوں کہ یہ ایک بڑا ملک تھا۔
پرل ہاربر پر حملے سے دو روز بعد جاپانی ہراول برما میں داخل ہو گئے۔ بڑی ضرب 15 جنوری 1942ء کو لگائی گئی، جب بڑی جاپانی قوت جنگلوں میں سے گزرتی ہوئی ملک کے اندر پہنچ گئی اور دو ہفتے میں انہوں نے ایک اہم علاقے پر قبضہ کر لیا۔ چھ مارچ 1942ء کو انگریزوں نے رنگون کی بندرگاہ خالی کر دی۔ جاپانیوں کے داخل ہونے سے پیشتر انہوں نے تمام ضروری چیزیں برباد کر ڈالیں۔ آئندہ دو مہینے کے لیے آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہا۔ جاپانی فوجیں پیش قدمی کرتی رہیں اور انگریز ہندوستان اور چین کی سرحدوں اور ہمالیہ کے دامن کی طرف پیچھے ہٹتے گئے۔
برطانوی اور ہندوستانی فوج کے ڈویژن گھنے جنگلوں کے راستے بنگال گئے۔ ان کے آگے آگے پناہ گیروں کا ہجوم چلا جا رہا تھا۔ ان فوجوں کے پاس جو میکانکی اسلحہ تھا، وہ جنگل میں جنگ کے لیے سازگار نہ تھا، لہٰذا تھکی ماندی، شکست خوردہ اور پریشان حال برطانوی فوجیں جاپانیوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ ملایا کی داستان یہاں بھی دہرائی گئی۔ اس اثنا میں جنرل جوزف سٹلویل نے کمک کا انتظام کیا۔ چینی فوجیں برما بھیج دیں اور ان کی کمانداری کے لیے خود آ گیا۔
سٹلویل سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ وہ زیادہ عرصے تک جنوبی برما میں ٹھہرا رہا اور جاپانیوں نے تھائی لینڈ سے برما میں داخل ہو کر اسے باقی برما سے منقطع کر دیا۔ مئی 1942ء میں 21 روز تک پسپائی کا زبردست سلسلہ جاری رہا۔ گھنے جنگل، موسلادھار بارشیں، قدم قدم پر دریا اور ندیاں، پھر پھندوں وغیرہ کا خوف، لیکن سٹلویل اپنی فوج کو بڑے بڑے پہاڑوں کے نشیب و فراز میں سے گزارتا ہوا آسام کی طرف بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
بہت سے آدمی راستے میں مر گئے۔ جب جنرل سٹلویل جنگلوں میں سے باہر نکلا تو اس نے بے تکلف اعتراف کر لیا کہ جاپانیوں نے ہمیں دھکیل کر باہر نکال دیا اور ہم پر نہایت خوف ناک ضربیں لگائیں۔ وسط مئی 1942ء تک برما کا بڑا حصہ جاپانیوں کے قبضے میں جا چکا تھا۔ سب سے زیادہ بری بات یہ ہوئی کہ برما کی سڑک بند ہو گئی۔
اگست 1942ء میں جاپانیوں نے برما میں اپنے ڈھب کی ایک حکومت قائم کر دی۔ برما کی سڑک بند ہوئی تو یہ اہم مسئلہ سامنے آیا کہ چین سامان کیسے بھیجا جائے۔ ایک حل یہ تھا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان طیاروں پر سامان بھیجا جائے جو ہمالیہ کے حصار پرسے گزرتے ہوئے کنمنگ پہنچے اور وہاں سے خشکی کے راستے سامان چنکنگ پہنچا دیا جائے۔ اس سلسلے میں شمال کا رخ اختیار کرنا ضروری تھا تاکہ ان جاپانی طیاروں کی زد سے محفوظ رہ سکیں، جن کے مرکز برما میں تھے۔ جفاکش امریکی پائلٹوں نے سامان بردار طیاروں کے ذریعے سے یہ آمدو رفت جاری رکھی۔
تحریر: لوئس ایل سنائیڈر