پاناما کیس: نوازخاندان کی 7 غلطیوں نے اقتدار سے جیل تک پہنچا دیا

Last Updated On 11 July,2018 03:44 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاناما کیس نے ملک کے طاقتور ترین سیاسی خاندان کو بدترین انجام سے دوچار کر دیا تاہم اس میں سابق وزیراعظم اور ان کی فیملی کا اپنا حصہ کم نہ تھا۔ نواز خاندان نےسات فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا جس نے انہیں ایوان اقتدار سے جیل میں پہنچا دیا۔

پاناما کا ہنگامہ خیز مقدمے میں وقت کے حاکم اور اس کے خاندان کو کڑی سزا سنا دی گئی۔ شریف خاندان کی اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں ایوان اقتدار سے بیدخلی اور جیل کی کوٹھڑی میں جا پہنچنے کی بڑی وجہ بنیں۔

شریف خاندان کی پہلی غلطی

پاناما لیکس کا دھماکہ ابھی نہیں ہوا تھا کہ سابق وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے خود ہی ہنگامہ کھڑا کردیا۔ انہوں نےنجی ٹی وی کو انٹرویو میں لندن فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت ہونے کا اعتراف کیا۔

دلچسپ حقیقیت یہ ہے کہ حسین نواز کے انٹرویو سے کچھ عرصہ قبل نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹی وی انٹرویو میں یہ کہہ کر اپنے پاؤؑں پر خود ہی کلہاڑی ماری کہ ان کی بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔

شریف خاندان کی دوسری غلطی

اپریل 2016 میں پاناما لیکس کے بعد شریف خاندان کی جانب سے جائیداد کی ملکیت سے متعلق صفائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نوازشریف اور ان کے خاندان نے تردید کی بجائے تسلیم کیا کہ آف شورکمپنیاں ان کے بچوں کی ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں لندن فلیٹس سے متعلق 7 سوالات اٹھائے۔ نواز شریف نے ان سوالوں کے جواب دیتے دیتے نوازشریف نے معاملہ مزید الجھا دیا۔ 16 مئی 2016 کو قومی اسمبلی میں اپنی صفائی دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے ایک ایسا جملہ کہا جو ان کیلئے پھندہ بن گیا ۔

تیسری اور سنگین ترین غلطی

اپوزیشن معاملہ پارلیمنٹ میں سلجھانےکیلئے تیار تھی مگر نوازشریف معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہ کر سکے۔ تحقیقات کیلئے سپیکر قومی اسملبی نے پارلیمانی کمیٹی بنائی مگر ٹی او آرز کی تیاری سیاست کی نذر ہو گئی۔

اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو درخواستیں مضحکہ خیز قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں مگر کپتان تھا کہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ عمران خان نے لاک ڈاؤن کی کال دی تو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نےتحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کر دیں۔

شریف خاندان کی چوتھی غلطی

شریف خاندان نےملک کی سب سےبڑی عدالت میں کیس کو سیاست کی بجائے قانونی طور پر لڑنا تھا مگر ایک اور غلطی کا ارتکاب کر دیا۔ عدالت میں اچانک قطری خط پیش کیا گیا جو شریف خاندان کی واحد منی ٹریل قرار پایا۔ سوال اٹھا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں قطری خط کا ذکر کیوں نہ کیا ؟ یہ خط شریف خاندان کیلئے گلی کی ہڈی بن گیا۔

شریف خاندان کی پانچویں غلطی

20 اپریل 2017 کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کےدو ججز نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا مگر باقی تین اس سے اتفاق نہیں کیا تاہم پانچوں ججز نے متفقہ طور پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ سنایا۔ شریف خاندان کو ایک مرتبہ پھر معاملے کی سنگینی کا ادراک نہیں ہوا اور فیصلے کو اپنی جیت قرار دے کر مٹھائیاں بانٹی گئیں۔

جے آئی ٹی میں پیشیاں شروع ہوئیں تو انہیں مشکل کا کچھ احساس ہوا مگر اپنی بیگناہی کے قانونی ثبوت پیش کرنے کے بجائے معاملے کو سیاسی رنگ دیا اور جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کیلئے زمین آسمان ایک کر دیا۔


شریف خاندان کی چھٹی غلطی

پاناما کے بعد اقامےکا پینڈورا باکس کھلا تو ہنگامہ مزید بڑھ گیا مگر شریف خاندان غلطی پر غلطی کئےجا رہا تھا۔ عدالت نے کیپیٹل ایف زیڈ ای کا پوچھا تو نواز شریف نے کمپنی میں ملازمت کا اقرار کرلیا۔ سپریم کورٹ نےکمپنی سےتنخواہ کو اثاثہ قرار دے کر فیصلہ سنایا کہ نواز شریف اثاثے چھپانے کے جرم میں صادق اور امین نہیں رہے۔

شریف خاندان کی ساتویں غلطی

نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد معاملہ احتساب عدالت گیا تو شریف خاندان نےقانونی محاذ پر لڑنے کی بجائے سارے کیس کو سیاسی بنا دیا۔ ایون فیلڈ ریفرنس کی دس ماہ سے زائد سماعت کےدوران نیب اور جے آئی ٹی کو متنازع بنانےکی پوری کوشش کی مگر منی ٹریل نہ دی۔

چھ جولائی کو نواز شریف کو دس سال، صاحبزادی مریم نواز کو سات سال، اور داماد کیپٹن صفدر کو ایک سال قید، اربوں روپے جرمانے اور جائیداد قرقی کی سزا ہو گئی۔ قانونی ماہرین کے مطابق ٹرائل کورٹ میں اپنی بیگناہی شواہد تو کجا ایک گواہ تک پیش نہ کرنا خودکشی سے کم نہیں۔


نوازشریف کی جمعہ 13 جولائی کو جیل جانے کیلئے وطن واپسی ان کی مجبوری ہے کیونکہ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کیلئے گرفتاری دینا ضروری ہے۔ پاناما کیس کے آغاز سے ہی نواز شریف نے اپنا سارا زور اسے اپنے خلاف سازش ثابت کرنےپر لگایا۔ قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اور ان کا خاندان غلطی پر غلطیاں نہ کرتا اور وہ مقدمہ قانونی دلائل اور شواہد سے لڑتے تو شاید ان کا یہ انجام نہ ہوتا۔