لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) قومی انتخابات کے بعد پاکستان کے ممکنہ وزیراعظم عمران خان کے پہلے غیر رسمی خطاب کو سیاست میں ایک اچھے باب کا اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
سادہ لباس میں ملبوس عمران خان نے سادہ انداز میں قوم کے سامنے دل کی باتیں کیں۔ انہوں نے اپنی ذات کو ٹارگٹ کرنے والوں کو معاف کرنے اور کسی قسم کا سیاسی انتقام نہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مدینہ کی ریاست کی طرز پر قانون کی بالادستی قائم کرنے، کمزور کا ساتھ دینے، مظلوموں اور خصوصاً کسانوں کو ان کے حقوق دلانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اندرونی و بیرونی محاذ پر اپنی پالیسیوں کے خدوخال بیان کئے۔
ان میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے اقدامات، اخراجات میں کمی لانے خصوصاً نیب اور ایف بی آر کو مضبوط بنانے کا ذکر لیا اور بیرونی محاذ پر امریکہ سے دو طرفہ مفادات پر مبنی تعلقات، افغانستان میں امن کیلئے کردار کے ساتھ ساتھ بھارت سے تعلقات کی بات کی اور کہا کہ باوجود اس امر کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے کردار کشی کا دکھ ہے پھر بھی اچھے تعلقات کیلئے بھارت اگر ایک قدم اٹھائے گا تو ہم دو اٹھائیں گے۔
انہوں نے کشمیر کو کور ایشو قرار دیتے ہوئے اس مسئلہ کی سنگینی کا بھی ذکر کیا۔ عمران خان نے مؤثر انداز اختیار کرتے ہوئے دل کی باتیں قوم کے سامنے رکھیں اور محسوس یہ ہو رہا تھا کہ ذمہ داری کے احساس اور چیلنجز کے بوجھ پڑنے کے بعد کا عمران خان ایک بدلا ہوا سیاستدان ہے جسے اس امر کا ادراک ہے کہ قدرت نے انہیں ایک بڑا موقع دیا ہے اور اب وہ اس موقع کو محاذ آرائی، کشمکش اور دباؤ کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اس کے ذریعے کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے سیاسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات کی تردید کرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کو یہ آپشن دیا کہ جہاں جہاں انہیں دھاندلی کی شکایات ہوں گی وہاں دھاندلی کی تحقیقات اور شکایات کے ازالے کیلئے وہ ان سے تعاون کریں گے یہ آپشن یقیناً دھاندلی کے الزامات کے سد باب میں معاون بن سکتی ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ انتخابی عمل سے پہلے انتخابات کیلئے ہونے والی مبینہ انجینئرنگ کے عمل نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیلئے شکایات کا انبار اٹھا رکھا ہے۔
اچھا ہوتا کہ عمران خان اپنے اس خطاب کے ذریعے قومی ایشوز اور جمہوری سسٹم کی بہتری کیلئے تمام اہم سیاسی جماعتوں کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھاتے اور یہ عزم ظاہر کرتے کہ قومی ایشوز پر مجھے آپ سب کو ساتھ لیکر چلنا ہے اور سب کے مینڈیٹ کا احترام ہو گا تو یقیناً اس حوالے سے ان کے سیاسی مخالفین بھی اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی پر مجبور ہوتے۔
جہاں تک آنے والے وقت میں بڑے چیلنجز کی بات ہے تو ان کو در پیش ایک طرف معاشی چیلنج ہے تو دوسرا بڑا سیاسی چیلنج جو انہیں پنجاب کے محاذ پر درپیش ہو گا اور یہیں سے ان کی سیاسی سوچ و اپروچ اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان شروع ہو گا کیونکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے سامنے آنے والے نتائج میں اکثریتی جماعت کے طور پر مسلم لیگ ن موجود ہے جبکہ کچھ فرق کے ساتھ پھر ان کی جماعت ہے جبکہ 30 سے زائد پنجاب اسمبلی کے آزاد اراکین موجود ہیں۔
تحریک انصاف مرکز اور پختونخوا میں حکومت سازی کے حوالے سے بھرپور اہلیت رکھے ہوئے ہے لیکن پنجاب کے محاذ پر انہیں ہر دو صورتوں میں مشکل صورتحال در پیش ہو گی۔ آزاد اراکین اور ق لیگ کو ساتھ ملا کر وہ حکومت بنا لیں گے لیکن اکثریتی جماعت کو اقلیتی یا اپوزیشن کا کردار ادا کرنا پڑے تو مشکل بہت ہوتی ہے اور جب ملک کے اندر پہلے سے ہی محاذ آرائی کی فضا ہو تو پھر اکثریتی جماعت کو پیچھے دھکیل کر حکومت سازی کرنے کا عمل بھی جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور ایسی کسی صورت میں پہلے روز سے ہی پنجاب اعلیٰ کا ایوان ایک بڑے طوفان کو جنم دے گا جو ایک نئی حکومت کے حوالے سے اچھا نہیں ہو گا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت پنجاب جیسے بڑے صوبے کو اپنی مخالف جماعت کے سپرد کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی جب وہ خود یہاں حکومت سازی کی پوزیشن میں ہو لہٰذا پنجاب کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات سے قبل بھی میدان جنگ پنجاب تھا، جہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف پنجاب کے انتخابات کو زندگی موت کا سوال سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو گرانے اور ہٹانے کیلئے سرگرم نظر آئیں اور اب انتخابی عمل کے بعد آنے والے نتائج کے بعد بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر پنجاب میں ہی دونوں جماعتوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری رہے گی اور اس سے نکلنے کا حل صرف ایک شخص کے ذریعے ہی ممکن ہے اور وہ صرف اور صرف عمران خان کی ذات ہو گی۔
پنجاب کے حوالے سے ان کی جانب سے اختیارکیا جانے والا طرز عمل ہی ان کی حکومت کے مؤثر ٹیک آف کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ آج پنجاب کے محاذ پر تحریک انصاف کو اسی صورتحال کا سامنا ہے جس کا سامنا 2013 کے انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن کو تھا اور پختونخوا میں تحریک انصاف اکثریتی جماعت ضرور تھی مگر اسے سادہ اکثریت درکار تھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کیلئے مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ سے رابطہ کیا اور حکومت سازی کے عمل کیلئے مدد مانگی مگر نواز شریف نے یہ کہتے ہوئے مدد دینے سے انکار کر دیا کہ اکثریتی جماعت کو نظر انداز کر کے اپنی حکومت کے ابتدا ہی میں وہ کسی بحران کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اب بھی پنجاب کے محاذ پر کسی قسم کے بحران یا استحکام کا دارومدار خود عمران خان کے طرز عمل پر ہو گا۔