لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے کرتارپور راہداری کی بحالی کے عمل پر یہ کہنا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاک بھارت دو طرفہ مذاکراتی عمل بحال ہو گیا، ہم سارک جائیں گے نہ پاکستان سے مذاکرات کرینگے۔ دوسری جانب پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا کرتارپور راہداری کی تقریب میں ایک مرتبہ پھر بھارت سے اچھے تعلقات، مذاکرات اور مل جل کر چلنے کے عزم کا اعادہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے باہمی تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ مذاکرات پر اصرار اور تکرار کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا ان ایشوز پر سیاسی کیس ہے جبکہ بھارت روایتی ضد اور ہٹ دھرمی پر کاربند رہتے ہوئے مل بیٹھنے سے انکاری ہے۔
ایسا کیوں؟ دنیا کے اہم ممالک مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟ بین الاقوامی طاقتیں خصوصاً امریکہ جب پاکستان اور بھارت پر دباؤ ڈالتا ہے تو پاکستان کے اقرار پر بھارت کا انکار کیونکر سامنے آتا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو پاک بھارت تنازعات کے ضمن میں سامنے آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پاک بھارت مذاکرات اور بات چیت کے حوالے سے اسی ایجنڈا پر ہیں جس پر ماضی کے حکمران نواز شریف بھی سرگرم دکھائی دیتے تھے وہ بھی مسلسل مذاکرات اور بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں رہے مگر وہ اس پر خود پاکستان کے اندر زیر عتاب رہے۔ اب نیا وزیراعظم نئے مینڈیٹ کے تحت وہی بات کرتا نظر آ رہا ہے کہ بھارت ایک قدم اٹھائے ہم دو اٹھانے کو تیار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس مذاکرات کا آپشن وہ ٹرمپ کارڈ ہے جس پر وہ بھارت کو دفاعی محاذ پر رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بڑی بات کی اور بھارت بڑا ہونے کے باوجود چھوٹی بات پر اٹکا ہوا ہے۔ بھارت اپنے مؤقف میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ اس حوالے سے خود بھارت کا مائنڈ سیٹ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اکنامک کاریڈور کے بعد علاقائی صورتحال میں اچھا اور سازگار ماحول پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان اسی بنیاد پر اس پر اصرار کرتا نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی صورتحال نے بھارت کو دفاعی محاذ پر کھڑا کر رکھا ہے اور وہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ کشمیر کے ایشو پر اس کی جانب سے کسی قسم کی لچک اسے کمزور وکٹ پر لے جائے گی۔ لہٰذاوہ ایسے کسی مذاکرات کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں جس میں باہمی تنازعات میں کشمیر بھی ایجنڈا میں شامل ہو۔ خود بھارت کے اندر کی کیفیت نے بھی مودی سرکار کو پریشان کر رکھا ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیوں اور اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل اور خیالات کے حوالے سے انتہا پسند اور شدت پسند ہیں اور اس مائنڈ سیٹ کے حامل لوگ مذاکرات اور بات چیت پر تیار نہیں ہوتے اور پھر حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیر پر بھارت کا کوئی سیاسی کیس نہیں۔
کشمیر پر اقوام متحدہ سے رجوع بھارت نے کیا، کشمیر پر قراردادوں پر دستخط بھارتی قیادت نے کئے اور اب ان قراردادوں اور اس پر آنے والے دباؤ سے روگردانی کا مرتکب بھی بھارت ہو رہا ہے اور بھارت کیلئے ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ کشمیر کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور حق خود ارادیت کیلئے جاری تحریک کی خبریں ملک کے دیگر حصوں میں نہ پھیل جائیں، خالصتان کی تحریک کچلنے کے باوجود کچلی نہیں گئی اور اس طرح کی سترہ اٹھارہ اور آزادی کی تحریکیں وہاں جنم لے چکی ہیں۔ جہاں تک پاک بھارت مذاکراتی عمل کیلئے بین الاقوامی دباؤ کا تعلق ہے تو امریکہ اور دیگر طاقتیں پاک بھارت مذاکرات پر زور دیتی ہیں مگر بھارت اس پر آنے کیلئے تیار نہیں، کشمیر پر پاکستان نے امریکی ثالثی کی بات کی تو بھارت اس پر بھی نہیں آیا۔ لہٰذا گیند خود عالمی برادری کے کورٹ میں ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے اور اسے مذاکرات کی میز پر لائے کیونکہ اس میں خود دنیا کا بھی فائدہ ہے اور علاقائی استحکام بھی اس سے مشروط ہے۔
بھارتی قیادت کو سوچنا پڑے گا کہ اگر وہ واقعتا امن سے مخلص ہے تو اسے اس کیلئے نیک نیتی ظاہر کرنا پڑے گی۔ دنیا کے حالات اور علاقہ میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بھی اس امر کے متقاضی ہیں کہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے اور مسائل کے حل کیلئے جنگوں کے بجائے مذاکرات کے آپشن کو استعمال کیا جائے۔ اسی میں امن، ترقی اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔