کرتارپور سکھوں کے لیےاہم کیوں ہے؟

Last Updated On 28 November,2018 05:19 pm

نارووال: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ہمراہ تھے۔ تقریب میں بھارت کی نمائندگی یونین منسٹر ہرسیمرٹ کور بادل اور ہردیپ سنگھ پوری نے کی۔

سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کرتارپور میں گورودوارہ دربارصاحب کے قریب ہوئی، جہاں وزیرا عظم عمران خان نے گورو دوارہ دربارصاحب (کرتارپور) سے بھارتی سرحد تک تقریباً 4.4 کلومیٹر طویل راہداری کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وفاقی وزراء شاہ محمود قرشی، شیخ رشید، نوجوت سنگھ سدھو اور دیگر بھی موجود تھے۔


کرتارپور کہاں ہے؟

کرتار پور میں واقع دربار صاحب گرودوارہ کا انڈین سرحد سے فاصلہ چند کلومیٹر کا ہی ہے اور نارووال ضلع کی حدود میں واقع اس گرودوارے تک پہنچنے میں لاہور سے 130 کلومیٹر اور تقریباً تین گھنٹے ہی لگتے ہیں۔

یہ گرودوارہ تحصیل شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ یہاں سے انڈیا کے ڈیرہ صاحب ریلوے سٹیشن کا فاصلہ تقریباً چار کلومیٹر ہے۔

راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد ہے۔ گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقام ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے۔

کرتارپور سکھوں کے لیےاہم کیوں ہے؟

کرتارپور کا گرودوارہ سکھوں کے لیے انتہائی مقدس مقام ہے۔ یہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کی رہائش گاہ اور جائے وفات ہے۔ گرو نانک نے اپنی 70 برس اور چار ماہ کی زندگی میں دنیا بھر کا سفر کیا اور کرتارپور میں انھوں نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے جو کسی بھی جگہ ان کے قیام کا سب سے لمبا عرصہ ہے۔

 یہیں گرودوارے میں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس سے قبل کیا صورتحال تھی؟

انڈیا میں مقیم دربار صاحب کرتارپور کے درشن کے خواہش مند افراد اس سے قبل اس کو دیکھ ضرور سکتے تھے مگر چار کلومیٹر دور سرحد کے اُس پار سے۔

انڈین بارڈر سکیورٹی فورس نے ایسے دید کے خواہش مندوں کے لیے سرحد پر ایک درشن استھل قائم کر رکھا ہے جہاں سے وہ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کرتے ہیں۔

 سنہ 1947 میں بٹوارے کے وقت گردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ گردوارہ بند رہا۔ جب تقریباً اٹھارہ برس قبل کھلا تو بھی انڈیا میں بسنے والے سکھ برادری کے تقریباً دو کروڑ افراد کو یہاں آنے کا ویزہ نہیں ملتا تھا۔

 معاہدے کے تحت ہر سال بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب کی زیارت پر پاکستان آنے والے چند سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ حال ہی میں ملنا شروع ہوا، تاہم ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں رہی۔

گرودوارہ کرتارپور

گرودوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں ہے جسے گرو نانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ گرو نانک کے زیر استعمال رہا۔ اسی مناسبت سے اسے  سری کُھو صاحب  کہا جاتا ہے۔

کنویں کے ساتھ ہی ایک بم ٹکڑا بھی شیشے کے شو کیش میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ اس پر درج تحریر کے مطابق یہ گولہ انڈین ایئر فورس نے سنہ 1971کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران پھینکا تھا جسے کنویں نے ’اپنی گود میں لے لیا اور دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔

گردوارے کے داخلی دروازے کے باہر سر ڈھانپنے کے بارے میں ہدایت درج ہے اور ملک کے دیگر گردواروں کی طرح‌ یہاں داخل ہونے کے لیے آپ کی مذہبی شناخت نہیں پوچھی جاتی۔ گردوارے کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل ہیں اور ہر آنے والے کے لیے یہاں لنگر کا بھی اہتمام ہے۔

گردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والی سیلاب میں تباہ ہوگئی تھی ۔ موجودہ عمارت سنہ 1920 سے 1929 کے درمیان 1,35,600 روپے کی لاگت سے پٹیالہ کے مہاراجہ سردار پھوبندر سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ سنہ 1995 میں حکومت پاکستان نے بھی اس کے دوبارہ مرمت کی تھی۔

راہداری کی شکل کیسی ہوگی؟

وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ ’سکیورٹی اور احتیاط‘ کے لیے راہداری کے دونوں طرف باڑ لگائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہیں گے جو آئیں خیر و خیریت سے آئیں اور خیریت سے واپس جائیں، انھیں کوئی پاسپورٹ کی کسی ویزہ کی ضرورت نہیں ہوگی، آئیں گے اپنا اندراج کروائیں گے انھیں پرمٹ ملے گا، جو چھوٹی موٹی فیس ہوگی ادا کریں گے، اپنا درشن کریں گے، اپنی زیارت کریں گے، وہاں کھائیں گے، پیئیں گے، رہیں گے۔‘شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس خطے میں بے پناہ مواقع ہیں جنھیں ہم استعمال نہیں کر سکے ہیں۔

’ہماری تو کوشش ہوگی کہ اگر تعداد بڑھ جاتی ہے، اور حالات اور بہتر ہوتے ہیں تو اس کے گرد و نواح میں بازار بنیں گے، خرید و فروخت ہوگی، ہوٹل بنیں گے،کاروبار چلے گا۔‘

بھارتی وزیر ہرسمرت کور نے واہگہ بارڈر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا آج دونوں جانب رہنے والے سکھوں کی دعائیں رنگ لےآئیں۔ کرتار پور کوریڈور پہنچنے والے یاتریوں کو مشین ریڈایبل پاسپورٹ، ویزہ فری انٹری، بس سروس اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ بائیو میٹرک نظام سے گزار کر یاتریوں کو خصوصی پرمٹ جاری کیا جائے گا۔ پرمٹ لینے کے بعد یاتری گوردوارہ کرتارپور کمپلیکس پہنچ کر مذہبی رسومات ادا کر کے واپس جائیں گے۔ احاطے میں ٹک شاپ بھی بنائی جائے گی جہاں سے یاتری خرید وفروخت کر سکیں گے۔ یاتریوں کے لئے فلاور شاپ، کیفے ٹیریا اور لائبریری کی سہولیات بھی منصوبے کا حصہ ہیں۔