کراچی: (دنیا کامران خان کے ساتھ) ملک میں معاشی جمود کو توڑنا ریاست کے تمام ذمہ داروں کی اولین ترجیح بن گیا، اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بزنس لیڈروں کی طویل ملاقات ہوئی، وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی معاشی ٹیم اور وزرا کے ساتھ کئی گھنٹے صلاح مشورہ کرتے رہے کہ مسائل کہاں کہاں ہیں اور کیسے حل کر نے ہیں ؟ بزنس لیڈرز آج وزیر اعظم سے ملیں گے آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں بڑے فیصلوں کا امکان ہے، کیونکہ مزید انتظار کی گنجائش نہیں، اب ایکشن لینا پڑے گا، جس سے کاروباری جمود توڑنے میں مدد ملے گی، وزیراعظم اپنی ٹیم میں تبدیلیاں بھی کریں گے، خاص طور پر اپنے دفتر میں ایک نظام ترتیب دیا جائے گا، جس کے ذریعے مسائل کو فوری طو ر پر حل کیا جائے گا، یہ نظام بھی ترتیب دیا جائے گا کہ وزیر اعظم جو احکامات دیتے ہیں اور کابینہ جو فیصلے کرتی ہے، ان پر ان کی روح کے مطابق فوری عملدرآمد ہو۔
اس کے علاوہ نیب کو بھی پیغام دیا جائے گا، یہ فیصلے اقتصادی کونسل میں ہونگے اور ان کی منظوری دی جائیگی، آرمی چیف بھی اقتصادی کونسل کے اہم رکن ہیں، ممکنہ فیصلوں میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تبدیل ہوسکتے ہیں اور نئے معاونین آ سکتے ہیں جو ٹیکنو کریٹس ہونگے، اس صور تحال کا پس منظر یہ ہے کہ ملک کے بزنس لیڈرز بہت پریشان ہیں، بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں ہیں، عمران حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں، یہ معاملات صرف شرح سود میں اضافہ یا روپے کی قدر گرنے کے نہیں ہیں، بزنس لیڈرز یہ مانتے ہیں کہ ملکی معیشت پرانی شرح سوداور شرح مبادلہ کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی، پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ بن گیا ہے، اس کے اپنے لوازمات ہیں مگر ان کا خیال ہے کہ گورننس، کاروبار میں آسانی پیدا کرنے اور انتظامی معاملات میں انہیں جس بہتری کی توقع تھی، وہ نہیں ہورہی، تشویش اس بات پر بھی ہے کہ وزیر اعظم جس دل جمعی سے بزنس لیڈرز اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملتے ہیں، ان سے تفصیلی ملاقاتیں کرتے ہیں، اپنی پوری ٹیم کو بٹھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جن مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے اور تجاویز دی جاتی ہیں، ان کو مانا تو جاتا ہے مگر ان پر عملدرآمد نظر نہیں آتا، جس سے اس تشویش نے جنم لیا، اسی وجہ سے پاکستان کے کلیدی بزنس لیڈرز نے آرمی ہاؤس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے غیر معمولی ملاقات کی، یہ طویل نشست بدھ کی شام 7 بجے شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی۔
دوسری جانب گورننس کے معاملے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کا بہت بڑا مسئلہ سرکاری ملکیت کے ادارے ہیں، حکومت اب تک یہ تعین نہیں کر پائی کہ کہاں کس حد تک نجکاری کی جائے ؟ یا نجکاری کرنی بھی ہے یا نہیں، یہ سرکاری ادارے قومی بجٹ پر ایک بوجھ ہیں، غریب ملک آج بھی ان اداروں کو چلانے کے لئے ایک ہزار ارب روپے ضائع کر رہا ہے، علاوہ ازیں 27 سرکاری کارپوریشنز میں بے انتہا مسائل ہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وفاقی کابینہ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں، سرکاری کارپوریشنز اور اداروں میں 134 اسامیاں خالی ہیں جن میں مستقل چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل، منیجنگ ڈائریکٹرز، چیف ایگزیکٹو افسروں کے عہدے شامل ہیں، تمام اسامیاں پر کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، اس کے نتیجے میں سٹیٹ بینک کے 3 میں سے دو ڈپٹی گورنرز نہیں ہیں، اس وقت ڈپٹی گورنر پالیسی اور ڈپٹی گورنر ڈویلپمنٹ کے شعبہ جات سربراہوں کے بغیر کام کر رہے ہیں، پلاننگ کمیشن میں چیف اکانومسٹ کا عہدہ تقرری کا منتظر ہے، سابق ایم ڈی عمران الحق کنٹریکٹ مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد سے قائم مقام ایم ڈی ادارے کے تمام معاملات چلا رہے ہیں، پی ایس او کے جنرل منیجر کے پاس جولائی 2018 سے ایم ڈی کا اضافی چارج ہے، او جی ڈی سی ایل 5 سال سے مستقل سربراہ سے محروم ہے، کمپنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروڈکشن اس کے ایم ڈی اور چیف آپریٹنگ آفیسر ہیں، اکتوبر 2018 سے زرعی ترقیاتی بینک کا کوئی صدر مقرر نہیں ہوسکا، حالانکہ ڈھائی ماہ قبل وفاقی کابینہ نے اس تقرری کی منظوری بھی دے دی تھی، سمیڈا کے جنرل منیجر قائم مقام چیف ایگزیکٹو افسر کے عہدے پر تعینات ہیں، اسلام آباد کی کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کا اضافی چارج کمشنر اسلام آباد سنبھالے ہوئے ہیں۔