اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے سینٹ انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق اٹارنی جنرل کو اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کی نظر میں گر جانا سیاستدان کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔ انتخابات میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیگ بھر بھر کے لے جائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے جعلی ڈگریوں، دوہری شہریت کے جھوٹے بیان حلفی اور یوٹیلٹی بلز نادہندگان کو بھی نااہل کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غلط بیان حلفی تو بذات خود ایک جرم ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا۔ جو شخص پارٹی کے خلاف ووٹ دے، کیا آپ انہیں بد دیانت کہہ سکتے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کسی کو دیانتدار یا بد دیانت کیسے قرار دے سکتا ہوں۔ آئین میں تو سیاسی جماعتوں کا بھی ذکر ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ قانون کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ آئین میں ذکر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحت بنیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لوگ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا اس کے منشور کو؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیادہ لوگ لیڈرز کی طلسمی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ طلسمی چیز کیا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ پارٹی کو دیا جاتا ہے نہ کہ انفرادی امیدوار کو، پارٹی منشور شائع کرنا قانونی طور پر ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات الیکشن کمیشن نہیں کراتا، عدالت قرار دے کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن آئین کے تحت نہیں ہوتا۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن پر عدالتی رائے آئی تو اوپن بیلٹ سے کروا دیں گے۔ عدالت نے مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔