21 فروری: مادری زبانوں‌ کا عالمی دن

Published On 21 February,2021 06:04 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو زبانوں کی پہچان اور اہمیت سے آگاہی کے لئے مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

نومبر 1999ء کو   انسانی ثقافتی ورثہ کا تحفظ   کی جنرل کانفرنس کے موقع پر یونیسکو نے مقامی زبانوں کے احیاء و بقاء کے لئے سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 7ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔

پاکستانی ماہرینِ لسانیات کے مطابق ملک بھر میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 بولیاں / زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 48 فیصد پاکستانی پنجابی زبان بولتے ہیں۔ اس کی ادبی روایت کئی صدیوں پر محیط ہے۔ حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃاللہ علیہ کی شاعری اور نوشہ گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کی نثر سے لے کر آج تک اس زبان میں بے شمار کتابیں تخلیق ہو چکی ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ آج تک اس زبان کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہو سکا جو اس کا اولین حق تھا۔ یہ ادبی اعتبار سے کسی بھی دوسری زبان سے پیچھے نہیں اس میں ہمارے دین و مذہب، علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا بیش قیمت سرمایہ موجود ہے۔

پاکستان اور ہندوستان میں کی گئی مردم شماری کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 15 کروڑ سے زائد ہے۔ انگریز نے فاتحانِ عالم کی طرح ہمت اور بہادری کے ساتھ برصغیر کو فتح نہیں کیا بلکہ تاجروں کا بھیس بدل کر روٹی کی بھیک مانگتے ہوئے ہندوستان میں آیا اور مغلیہ حکمرانوں کے سامنے دامن پھیلا کر تجارتی سہولیات حاصل کیں لیکن موقع ملتے ہی لٹیروں اور ڈاکوؤں کی طرح اپنے ہی محسنوں کے گھر پرقبضہ کر لیا۔ انگریزی نے قدم جمانے کے بعد مقامی زبناوں کو نظر انداز کر دیا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ   کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو‘‘ تو قوم کی روایات، تہذیب، ثقافت، تاریخ اور اس کی قومیت غرض سب کچھ مٹ جائے گا۔مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔اسی لئے دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان اور زود اثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔لیکن انگریز نے پنجاب میں رائج نظامِ تعلیم کو ختم کرتے ہوئے پرائمری تک تعلیم کے لیے ،قامی زبانوں (سندھی، بلوچی اور پشتو)کی جگہ اردو زبان کو لازمی قرار دیا۔ جبکہ فارسی کی جگہ انگریزی سرکاری زبان بنا دی گئی ۔ انگریزی بولنے اور پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلانے لگے،باقی سب جاہل تھے ۔

انگریز نے غلامی کا وار اس انداز میں کیا کہ مسلمانوں کا صدیوں سے رائج نصاب بے وقعت ہو گیا۔ ایک طرف مسلمان معاشی طور پر دلد ل میں پھنستے چلے گئے تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کے فروغ کا زور و شور ان کو لے ڈوبا۔ علم و عمل کی بنیاد پر برصغیر پر ہزار سال حکومت کرنے والی مسلم قوم کو ایک دم جاہل گنوار بنا کر رکھ دیا گیا۔ انگریز کی اس کاری ضرب کی وجہ سے مسلمان اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔پنجاب کے وہ سورمے جو عظیم ہیرو تھے انہیں ڈاکو اور لٹیرے بنا کر پیش کیا گیا۔ اِس طرح پنجاب کی نئی نسل اپنی ہی زبان اور ثقافت پر نازاں ہونے کی بجائے شرمندگی محسوس کرنے لگی۔ انگریز نے پنجاب پر قبضہ کیا کیا، اس نے یہاں کے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا اور انگریزی زبان کو اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ عوام دیسی زبانیں بولنے میں شرمندگی محسوس کرنے لگے۔

نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بھی ہرشعبہ ہائے زندگی میں انگریزی کو ہی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی ایک ترقی یافتہ اور جدید سائنسی علوم کے ذخیرے سے مالا مال زبان ہے۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اپنی زبان اور روایات چھوڑ کر کسی غیر کی زبان اور تہذیب و تمدن کو اپنا کر کبھی ترقی نہیں کی۔ کیونکہ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اسکے ساتھ ثقافتوں اور روایات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جن معاشروں میں دانشوراپنی دھرتی کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو ان ممالک کی عوام اپنی ثقافت، زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔لہٰذا ہمیں ہر صورت اپنی ماں بولی کا بغیر کسی تعصب کے ضرورتحفظ کرنا چاہیے۔

حکومتِ وقت مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء اور محققین کی سرپرستی کرے، ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔ یونیورسٹیوں میں سندھی، بلوچی ،پنجابی زبان اور پشتون زبانوںمیں ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی پروگرامز بھی شروع کیے جا چکے ہیں تاہم ان ڈگریوں کی معاشی اہمیت چونکہ محدود ہے کیونکہ ماں بولی کے احترام کے سوا عملاً کچھ نہیں ملتا۔پنجابی زبان تو ایک طرف آج تو اردو بھی عملاً سرکاری زبان نہیں اور اسے بھی انگریزی کی ضرورت کے سبب علاقائی زبانوں کے خیمے میں پناہ لینی پڑ گئی ہے۔

حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ابتدائی کلاسز میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ دنیا کے کئی ممالک نے مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت کو مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ہر بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہے اور تمام زبانوں کی بلا امتیاز ترویج و ترقی شہریوں کے بنیادی حقوق اور ریاستی فرائض کا حصہ ہے۔لیکن پاکستان میں آج بھی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام و مرتبے پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ سندھ میں سندھی، خیبر پختونخوا میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجاب میں پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پر کبھی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔

مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے زبان کی آبیاری ہوتی ہے، اس کے برعکس جن اقوام کا اپنی ہی مٹی سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے شکست اور ذلت و پستی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے تمام صوبوں میں مقامی زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔

ماں بولی جے بھُل جائو گے
ککھاں وانگوں رُل جائو گے

تحریر: حافظ غلام صابر