اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ چیئر مین سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے امیدوار ہوں گے جبکہ ڈپٹی چیئر مین اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا فیصلہ سسٹیرنگ کمیٹی کرے گی۔ حکومت نے گیلانی کے کامیاب نیتجے کوچیلنج کردیا ہے۔ اگرانتخاب غلط تھا توآپ کواعتماد کے ووٹ کے تکلف کی کیا ضرورت تھی؟۔
پی ڈی ایم اجلاس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آج پاکستان ڈیمو کریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کاسربراہی اجلاس ہوا، اجلاس میں تمام جماعتوں کےسربراہان نے شرکت کی، یوسف رضا گیلانی کو متفقہ طور پر چیئرمین سینیٹ کیلئے امیدوار نامزد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سینیٹ میں لیڈرآف دی اپوزیشن کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پی ڈی ایم میں ڈپٹی چیئرمین کے نام کے حوالے سے اختلاف والی بات نہیں، کل کمیٹی کے اجلاس میں معاملات طے پاجائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں سٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس کل ہو گا۔ کمیٹی میں میاں افتخارحسین،جہانزیب جمال الدینی،اکرم خان درانی، پرویزاشرف ، حافظ عبد الکریم شرکت کریں گے جبکہ اپوزیشن اتحاد کی ہر جماعت کا ایک ایک رکن سٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہو گا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے غنڈوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) پر حملہ کیا، مریم اورنگزیب کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ مریم اورنگزیب کے آنچل کو بھی تار تار کرنے کی کوشش کی، بدسلوکی کا واقعہ حکومتی بوکھلاہٹ ظاہر کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کے غنڈوں نے سیاسی قائدین کی توہین کی۔ یہ واقعہ قابل نفرت اور قابل مذمت ہے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ اور قومی اسمبلی کا بلایا گیا اجلاس غیر آئینی ہے۔ 26 مارچ کو لانگ مارچ کا آغاز ہو گا۔ 30 مارچ تک قافلے منزل تک پہنچ جائیں گے۔ لانگ مارچ کے لیے ملک کے تمام شہروں سے قافلے آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آج یوسف رضا گیلانی کے کامیاب نیتجے کوچیلنج کردیا ہے۔ روایات سے ہٹ کرجلد سماعت کا بھی اعلان کردیا ہے۔ اگرانتخاب غلط تھا توآپ کواعتماد کے ووٹ کے تکلف کی کیا ضرورت تھی؟۔ اس طرح کے بے سروپا اقدامات کسی صورت قبول نہیں کیے جاسکتے۔ ایسے اوچھے ہتکھنڈے جمہوریت کا راستہ نہیں روک سکتے۔ تمام ناجائرحربے استعمال کیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم سربراہی اجلاس نے سینیٹ کے حالیہ انتخاب کا تفصیلی جائزہ لیا، الیکشن کمیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اداروں نے اثراندازہونے کی غیرقانونی کوشش کی، اجلاس نے اداروں کے مداخلت کی مذمت کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت نےبھی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے نام کااعلان نہیں کیا۔ سینیٹ الیکشن کے بعد اعتماد کے ووٹ کا ڈرامہ کیا گیا۔ یہ غیرجمہوری طریقےسےیوسف رضاگیلانی کوروکناچاہتےہیں۔ امیدہےالیکشن کمیشن کوئی غیرآئینی اقدام نہیں کرےگا، 12مارچ کوپی ڈی ایم چیئرمین سینیٹ کاانتخاب جیتےگی۔
ان کا کہنا تھا کہ کل ق لیگ کے قائد چودھری شجاعت حسین کی خیریت پوچھنے گیا تھا، حمزہ شہبازکورہائی کے بعد ملاقات کرنے گیا تھا، ہم سب اتحادی ہیں، ملاقاتیں ہونگی، عدم اعتماد کب اورکہاں ہونا ہے فیصلہ پی ڈی ایم نے کرنا ہے، پی ڈی ایم سے پہلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ شفاف الیکشن ہوا تو ہمارا امیدوار جیت جائے گا، شفاف الیکشن ہی ہمارا مطالبہ ہے ۔ لانگ مارچ کے لیے فیض آباد کا نام لیا جارہا ہے جواسلام آباد،پنٖڈی میں ہے۔
ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ قوم چیئرمین سینیٹ انتخاب کےلیے شو آف ہینڈز کا انتظار کررہی ہے، صادق سنجرانی کی جیت کامطلب انتخاب میں پیسہ چلا، حکومت بتائے چیئرمین سینیٹ کےلیے امیدوار کس بنیاد پر کھڑا کیاہے، چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومت کے پاس عددی اکثریت نہیں۔
پی ڈی ایم رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے الیکشن کے بعد سینیٹ میں پیسے چلنے کے بھاشن سنیں، اب قوم انتظارکررہی ہے کہ کب اوپن بیلٹ سے الیکشن ہوگا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس چیئرمین سینیٹ کے لیے مطلوبہ تعداد نہیں ہے، حکومت نے کس بنیاد پراپنا امیدوارکھڑا کیا ہے؟ حکومت کے امیدوارکے کامیاب ہونے کی وجوہات پیسے سے خریدوفروخت ہمارے لوگوں کو توڑا جائے گا، فون کالزبھی لوگوں کوآنا شروع ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018کےبعد پنجاب میں حکومت بنانا ن لیگ کا حق تھا، پنجاب میں تبدیلی کے لیے پی ڈی ایم مل کر غور کر ے گی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ہم سے رابطے میں ہیں۔ 2018میں بدترین دھاندلی کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ ن جیت گئی۔