اپوزیشن کو سینیٹ میں شکست، صادق سنجرانی نے دوبارہ چیئرمین کا حلف اٹھا لیا

Published On 12 March,2021 05:15 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) حکومتی امیدوار صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے ہیں، انہوں نے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست دی۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی نے 48 جبکہ اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی نے 42 ووٹ حاصل کئے۔ خیال رہے کہ 98 سینیٹرز نے اپنا اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد ووٹ کاسٹ کرنے ہی نہیں آئے۔ اراکین کی جانب سے بیلٹ پیپر پر غلط مہر لگانے کی وجہ سے 7 ووٹ مسترد ہوئے۔

پریزائنڈنگ افسر نے صادق سنجرانی کی جیت کا اعلان کیا تو اپوزیشن خصوصاً پیپلز پارٹی کی جانب سے اس پر احتجاج کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا کہ بلیٹ پیپر پر یہ کہیں نہیں لکھا کہ مہر کہاں لگائی جائے، امیدواروں کے نام کے اوپر مہر لگانے سے ووٹ مسترد کرنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔

حلف اٹھانے کے بعد صادق سنجرانی نے ایوان بالا میں چیئرمین کی نشست کو سنبھالا اور کہا کہ میں دوبارہ چیئرمین منتخب کرنے پر اپنے تمام اراکین، وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور خصوصاً پرویز خٹک صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں تمام سینیٹرز کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہاؤس کو ساتھ لے کر چلوں گا۔

دوسری طرف ڈپٹی چیئر مین کی سیٹ بھی حکومتی اتحاد کے حمایت یافتہ محمد مرزا آفریدی نے جیت لیا۔

سینیٹ میں ڈپٹی چیئر مین کا الیکشن ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے نامزد کردہ امیدوار محمد مرزا آفریدی نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدوار مولانا عبد الغفور حیدری کو شکست دیدی ہے۔

ڈپٹی چیئر مین سینیٹ الیکشن کے دوران 98 ووٹوں میں سے کوئی بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ فاتح امیدوار نے 54 ووٹ حاصل کیے ، ہارنے والے امیدوار نے 44 ووٹ حاصل کیے۔

الیکشن جیتنے کے بعد ڈپٹی چیئر مین سینیٹ محمد مرزا نے چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی سے حلف اٹھا لیا۔
 

پی ڈی ایم امیدوار یوسف رضا گیلانی کا سیاسی سفر 

چیئرمین سینیٹ کیلئے اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سیاسی کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو ان کا سیاسی سفر ملتان میں ضلع کونسل سے شروع ہوا تھا۔


یوسف رضا گیلانی 9 جون 1952ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کی پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخ ہے۔ اپنے خاندانی بیک گراؤنڈ کے پیش نظر وہ بھی سیاست کے میدان میں اترے اور 1983ء میں ضلع کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ انہوں نے ضلع کونسل کے انتخاب میں سید فخر امام کو شکست دی تھی۔

یوسف رضا گیلانی نے1985 میں غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور محمد خان جونیجو کی کابینہ میں ہائوسنگ و تعمیرات اور ریلوے کے وزیر رہے۔

اس کے بعد 1988ء میں انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی ملتان میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس وقت منعقدہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو شکست سے دوچار کیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے سیاست میں پے در پے کامیابیاں حاصل کیں اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوسف رضا گیلانی 1990ء میں تیسری اور 1993ء میں چوتھی بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

1993ء میں شہید بینظیر بھٹو کی حکومت میں یوسف رضا گیلانی سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے پاکستان کے اٹھارویں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس اہم عہدے پر تقریباً چار سال براجمان رہے۔

خیال رہے کہ 2012ء میں صدر آصف علی زرداری کیخلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کیس میں چند سیکنڈ کی سزا سنائی اور وہ 5 سال کے لیے نااہل ہو گئے۔

صادق سنجرانی کا سیاسی سفر

چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومت کی جانب سے نامزد امیدوار صادق سنجرانی 14 اپریل 1978ء کو بلوچستان کے علاقے چاغی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد آصف سنجرانی کا شمار چاغی ضلع کے صف اول کے قبائلی سرداروں میں ہوتا ہے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم نوکنڈی سے حاصل کی، بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لیے اسلام آباد آگئے اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صادق سنجرانی 2008ء میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے شکایت سیل کے انچارچ تھے۔

انہوں نے 3 اپریل 2018ء کو منعقد ہونے والے سینیٹ انتخابات میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیا اور اسے جیت کر سینیٹر بنے۔

2018ء کو صادق سنجرانی کو بلوچستان سے پہلا چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

اگست 2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔

محمد مرزا آفریدی کون ہیں؟

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد امیدوار سینیٹر مرزا محمد آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے قبیلہ سپاہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مرزا محمد آفریدی کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کیا ہے۔

مرزا محمد آفریدی آزاد حیثیت سے مارچ 2018 میں سینیٹر منتخب ہوئے اور وہ مارچ 2024 میں ریٹائر ہوں گے۔

سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے اسلام آباد سمیت مغربی ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

مرزا محمد آفریدی پشاور زلمی کے مالک جاوید افریدی اور سینٹر ایوب آفریدی کے کزن ہیں اور ان کا تعلق ارب پتی خاندان سے ہے جن کا بیرون ملک بھی کاروبار ہے۔

سینیٹر مرزا آفریدی کے چچا محمد شاہ آفریدی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں قبائلی ضلع خیبر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

مولانا عبدالغفور حیدری کون ہیں؟

 

پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کےعہدے کےلئے نامزد امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کا شمار بلوچستان کے ممتاز مذہبی اور سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے، وہ اس وقت جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل کےعہدے پر فائز ہیں۔

3مارچ کے سینیٹ انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی ٹکٹ پر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی حمایت سے چھ سالہ مدت کے لیے دوبارہ سینیٹ کے رکن منتخب ہنے والے مولانا عبدالغفور حیدری دوسری بار ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کےانتخاب میں امیدوار ہیں۔

مولانا عبدالغفور حیدری جون 1957 کو قلات میں علاقے کی ممتاز قبائلی شخصیت محمد اعظم لہڑی کے ہاں پیداہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں حاصل کی اور بعد ازاں 1979میں وفاق المدارس العربیہ کےتحت امتحانی بورڈ سے مذہبی تعلیم مکمل کی۔ مولاناعبدالغفور حیدری 1974میں تحریک ختم نبوت اور 1977 میں تحریک نظام مصطفے میں سرگرم رہے۔۔

انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1981میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے کیا، 1984 میں اپنے علاقے قلات میں جامعہ شاہ ولی اللہ کی بنیاد رکھی اور وہاں 1990 تک مہتمم اور مدرس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔

اپنے سیاسی کیرئیر سے قبل اور بعد میں مولانا عبدالغفور حیدری نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، وہ 1995میں جے یو آئی کے مرکزی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے، اس کے بعد سے اب تک وہ پانچ بار مسلسل اسی عہدے پر منتخب ہوچکے ہیں۔

مولانا عبدالغفور حیدری 1990 کےعام انتخابات میں رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور سینئر صوبائی وزیر رہے، 1992میں حکومت سے اختلافات کےبعد انہوں نے اپوزیشن کو جوائن کرلیا۔

مولانا عبدالغفور حیدری 1993 کےانتخابات میں قلات کےحلقہ سے پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، وہ 2002میں دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ 2008 میں سینیٹر منتخب ہوئے، اس عرصہ کے دوران وہ سینیٹ آف پاکستان میں مخلوط حکومت کے چیف وہپ اور دو سال تک سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے، 2013 میں وزیر مملکت برائے پوسٹل سروسز رہے۔

بعد ازاں 2015 میں وہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور اس عہدے پر 2018تک فائز رہے، 12 مئی 2017 کو مستونگ میں وہ ایک خودکش حملے میں زخمی بھی ہوگئے تھے۔

تین مارچ کے سینیٹ انتخابات میں مولانا عبدالغفور حیدری جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی ٹکٹ پر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی حمایت سے چھ سالہ مدت کے لیے دوبارہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے، یہ دوسری بار ہے کہ مولانا عبدالغفور حیدری ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کےانتخاب میں امیدوار ہیں۔

Advertisement