اسلام آباد میں ینگ ڈاکٹرز اور پولیس آمنے سامنے، لاٹھی چارج، مظاہرین کا پتھراؤ

Published On 05 October,2021 02:23 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد میں پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر ینگ ڈاکٹرز اور پولیس آمنے سامنے آگئے۔ مظاہرین کے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش پر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جبکہ مظاہرین نے پتھراؤ کیا۔

 شہر اقتدار کا جی نائن مرکز میدان جنگ بن گیا۔ مختلف شہروں سے آئے ڈاکٹرز نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر احتجاج کیا۔ احتجاجی ڈاکٹرز نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر پولیس اہلکار اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسوگیس کی شیلنگ کا استعمال کیا۔

احتجاجی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ نیشنل لائسنسنگ امتحان کسی صورت قبول نہیں کریں گے، این ایل ای امتحان ہمارے لئے اضافی بوجھ ہے، ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ پی ایم سی کے بجائے یو ایچ ایس لے، پی ایم سی کے نائب صدر علی رضا کو عہدے سے ہٹایا جائے۔

دوسری طرف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں انہوں نے لکھا کہ احتجاج میڈیکل سٹوڈنٹس کا حق ہے لیکن بلڈنگز کے اندر زبردستی داخل ہونا۔ عوام کا راستہ روکنا۔ مار پیٹ کرنا۔ ایسی چیزیں قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ جب تک آپ قانون کے مطابق احتجاج کریں گے آپکو قانون کے مطابق احترام اور سیکورٹی ملے گی۔ جب قانون ہاتھ میں لیں گے تو قانون کے مطابق کاروائی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں پاکستانی ڈاکٹرز کی مانگ پوری دنیا میں تھی لیکن اب پچھلے کئی سال سے مڈل ایسٹ سمیت دنیا میں پاکستانی ڈگری کو نہیں مانا جاتا۔ یہ راتوں رات نہیں ہوا، کئی سال کی بدانتظامی، کرپشن، میرٹ کی خلاف ورزی نے غیر معیاری تعلیم نظام کو جنم دیا۔عالمی معیار کو یقینی بنانے کے لئے میڈیکل طلباکے لئے ٹیسٹ کا نیا نظام MDCAT پاکستان میں متعارف کروایا گیا ہے۔

معاون خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ یہ نظام امریکا، برطانیہ ، بھارت اور دنیا کے بہت سے ممالک میں کامیابی سے رائج ہے۔ حکومت معیار اور میرٹ کا نظام لا رہی ہے۔ احتجاج کی بجائے اس نئے نظام کو چلنے دیں تا کہ پاکستانی طبی تعلیم بھی علمی معیار کی ہو۔

شہباز گل کا کہنا تھا کہ اسی طرح پورے دنیا میں ڈاکٹرز سے ہر چند سال بعد ٹیسٹ لئے جاتے ہیں اور اس کے بعد ان کا لائسنس ریونیو کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے سٹینڈرڈز کی ضرورت ہے۔ اس لیے ان چیزوں پر بیٹھ کر بات کرنی ہوگی اور احتجاج اور توڑ پھوڑ سے گریز کیا جائے۔

Advertisement