لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان میں موسم سرما ےکے ساتھ ایک بار پھر سموگ کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سابق حکومت کی کوششوں سے فضائی آلودگی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا تھا۔ لیکن رواں سال ایک بار پھر یہ آلودگی سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں بلخصوص پنجاب میں سموگ کی بڑھتی ہوئی یہ شدت موجودہ حکومت کی غیرسنجیدگی کا پتہ دے رہی ہے۔ دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت میں بھی فصلوں کو آگ لگانے سے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا میں فضائی آلودگی میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ ملک میں اس بار سموگ بڑھنے کی بڑی وجہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں، صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف ،مؤثر اقدامات کا نہ ہونا ہے۔حکومتی ادارے کبھی موسم اور کبھی کسانوں کی جانب سے کٹائی کے بعد فصلوں کو آگ لگانے کا انجام قرار دیتے ہیں، تو کبھی اسے بھارتی کسانوں اور بھارتی حکومت کا "خفیہ ہتھیار" قرار دے کر عوام کی نظریں حکومتی نااہلیوں سے موڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
زہریلے دھوئیں گردوغبار اور آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا ءمیں تحلیل ہونے والی آلودگی کو سموگ کہا جاتا ہے ۔سموگ کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں، جس میں سلفورس سموگ اور فوٹوکیمیکل سموگ شامل ہیں۔ سلفورس سموگ کو لندن سموگ اور فوٹو کیمیکل کو لاس اینجلس سموگ کہتے ہیں۔دنیا میں پہلی بار سموگ کا لفظ 1950 کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی با رصنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسموگ دو الفاظ دھواں(Smoke) اور دھند (Fog) کے باہمی اشترک سے بنا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق یہ لفظ Dr. Henry Antoine des Voeux نے اپنے مکالے فوگ اینڈ اسموگ (Fog & Smog)میں استعمال کیا۔
پاکستان میں سموگ کا آغاز:
پاکستان میں سموگ کے مسئلے نے 2015 میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پاکستان میں سموگ اکتوبر سے جنوری تک کسی بھی وقت وارد ہو سکتی ہے اور اس کی شدت 10 سے 25 دن تک طویل ہو سکتی ہے اور فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال سموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق دنیا میں سالانہ 70 لاکھ افراد کی اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہے۔ دنیا کی 91 فیصد آبادی ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں ہوا کا معیار عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی حدوں سے تجاوز کرتا ہے۔ رواں سال ایئر کوالٹی اور آلودگی کے لحاظ سے پاکستان کے شہر لاہور اور کراچی دنیا کے 25 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوتےہیں۔ اسی طرح گزشتہ تین سالوں (2018،2019،2020) سے پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ملکوں میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے، جبکہ اسی فہرست میں بنگلہ دیش کا پہلا اور بھارت کا تیسرا نمبر ہے۔ آئی کیو ایئر کوالٹی کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال اکتوبر میں پاکستان کے آلودہ ترین شہروں میں بہاولپور پہلے، کراچی دوسرے، ساہیوال د تیسرے،لاہور چوتھے اور ملتان پانچویں نمبر پر آیا ہے۔
پاکستان میں فوٹو کیمیکل سموگ پائی جاتی ہے ۔اس میں وولیٹائل کے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں، یہ ذرات مختلف قسم کی گیسوں ،مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں ۔سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جو کہ صنعتوں گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے ہوا میں شامل ہو جاتی ہیں، جب سورج کی کرنیں ان ذرات پر پڑتی ہیں تو سموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ سردیوں میں جب ہواکی رفتار کم ہونی شروع ہوتی ہے تو ہوا میں شامل یہ دھواں اور دھند جمنے لگتا ہے اور نتیجہ سموگ کی صورت میں نکلتا ہے۔ سموگ میں ز مینی اوزون سلفر ڈائی آکسائیڈ ،نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اورپا رٹیکیولیٹ جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں ۔یہ خوردبینی ذرات ٹھوس بھی ہو سکتے ہیں اور ما ئع شکل میں بھی موجود ہوتے ہیں جو آکسیجن پر اثرانداز ہو کو سانس لینے کے عمل میں دشواری پیدا کرتے ہیں ۔
یونیورسٹی آف شیکاگو کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سموگ کے باعث ہر پاکستانی شہری کی اوسط عمر میں 2.7 سال کی کمی آ رہی ہے، جبکہ لاہور کے ہر شہری کی عمر میں 5.3 سال، فیصل آباد کے شہری میں 4.8 سال اور گوجرانوالہ کے ہر شہری کی عمر میں 4.7 سال کی کمی آ رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ فضائی آلودگی تو ساراسال رہتی ہے تو بھر یہ سموگ نومبر میں ہی کیوں آتی ہے ؟
نومبر کے آتے ہی ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ہمسایہ ملک سے دھوئیں کے بادلوں کا آنابھی شروع ہو جاتا ہے۔ جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو یہ ذرات جم جاتے ہیں اور عام زبان میں اس کو سموگ کا سبب خیال کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق انڈیا میں سالانہ بنیادوں پر 4 لاکھ ٹن دھان کی فصل کا منڈھ جلایا جاتا ہے۔ امریکی ادارے ناسا سے لی گئی تصویروں کے مطابق بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں دھان کے منڈھ جلانے کی شرح بہت زیادہ ہے اس دھویں ہی کی وجہ سے حد نگا ہ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کمی اب صرف لاہور میں ہی نہی ہوتی بلکہ اس کا سلسلہ فیصل آباد تک جا پہنچا ہے جبکہ بھارت کے شہر دہلی اور انبالہ بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں ۔عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سموگ صرف پاکستان اور بھارت میں ہوتی ہے،تاہم دنیا کے دیگر ممالک بھی سموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ انگلستان ،یورپی ممالک اور امریکہ بھی سموگ کی زد میں ہیں مگر یہ ترقی یافتہ ممالک مصنوعی بارش کا بندوبست کرکے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ چین میں سموگ کا سلسلہ ایک عرصہ تک چینیوں کے لیے درد سر بنا رہا ہے، مگر انہوں نے بہترین اقدامات کر کے اس پر قابو پالیا ہے، جس کی ایک مثال دنیا میں نسب کیا جانے والا سب سے بڑے ایئر فلٹر کی ہے جو کہ اس وقت چین کے شہر بیجنگ میں نصب ہے ۔
سموگ سے عام طور پر پیدا ہونے والی بیماریاں :
کسی شہر یا قصبے کو سموگ گھیر لے تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ سموگ کے ذیر اثر افراد میں سانس لینے میں دشواری یعنی دمہ ،گلے میں خارش، آنکھوں میں جلن، بخار ،کھانسی، فلو اور پھیپھڑوں میں انفیکشن جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں ۔ سموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کیلئے دورے کا خطرہ بڑھانے کیلئے کافی ثابت ہوتی ہے۔سموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ آلودگی میں معمولی اضافہ بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ماہرین صحت کی جانب سے سموگ کو دماغی صحت کیلئے تباہ کن قرار دیا جاتاہے۔ ماہرین کے مطابق فضا میں آلودہ ذرات کا ایک مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر اضافہ ڈیمینشیا کا خطرہ 16 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ کورونا، ڈینگی اور سموگ کے باعث نفسیاتی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے۔ اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سموگ ناصر ف انسانوں پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ پودوں کی افزائش اور جنگلات بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
فضائی آلودگی کی پیمائش کرنے والے آلات:
پنجاب میں سموگ کی باعث فضا میں ہونے والی آلودگی کی پیمائش کیلئے چھ مقامات (تین لاہور جبکہ ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں ایک ایک) پر آلات نصب کیے جا چکے ہیں،جو 24 گھنٹےمانیٹرنگکرتےہیں۔ یہ آلات ائیر کوالٹی کا انڈکس بتاتے ہیں،جس سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ آلودگی کا تناسب کیاہے۔ مون سون کے بعد مڈھ جلانے کے عرصے میں ہوائیں جنوب سے جنوب مشرق کی جانب چلتی ہیں جس سے آلودگی انڈیا کی جانب جانی چاہیے، نہ کے پاکستان کی طرف۔لیکن امریکی ادارے رینڈ کارپوریشن کی جانب سے کی گئی حالیہ تحقیق کے مطابق ایسا ہر سال بدل سکتا ہے جس کا دارومدار ہوا کے دباؤ اور مڈھی جلانے کے اوقات پر ہوتا ہے۔
فضائی آلودگی کو کیسے جانچا جاتا ہے ؟
پنجاب میں فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے ائیر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے گئے ہیں۔ فضا میں موجود آلودگی کے تمام عناصر کو ایک خاص فارمولے کے تحت جانچاجاتا ہے جس کے بعد ائیر کوالٹی انڈکس نکلتا ہے۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق اگر ائیر کوالٹی انڈکس 200 تک ہو تو حالات نارمل ہوتے ہیں، 200 سے 300 تک کی سطح پر آنکھوں میں جلن کا آغاز ہو جاتا ہے جبکہ سانس اور دل کے مریض بچے بوڑھے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب ائیر کوالٹی کا انڈکس 400سے 500کی سطح تک پہنچ جاتا ہے تو یہ انتہائی خطرناک حالات ہوتے ہیں، جب ائیر کوالٹی انڈکس 500کی سطح عبور کر لیتا ہے تو صحت مند لوگ بھی اس سے بری طرح متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ان میں سانس، دل ،جلد اور انکھوں کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
سموگ پر قابو پانے کیلئے حکومتی اقدامات:
حکومتی اقدامات میں اینٹوں کے بھٹوں کی بندش ،فصلوں کی باقیات جلانے پر پاپندی ،زیادہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں پر بھاری جرمانے کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں ۔
پاکستان میں سموگ کا سیزن :
پاسکتان میں سموگ کے سیزن کا آغاز اکتوبر کے کسی بھی دن سے ہو سکتا ہے اور یہ جنوری تک جاری رہتا ہے ۔اس میں شدت اس عرصہ کے دوران 10 دن سے لیکر 25 دن تک ہو سکتی ہے۔ محکمہ ماحولیات سے ملنےوالےاعدادوشمارکےمطابق 2019 میں 2 ہزار 407 چھوٹی بڑی فیکٹریوں کا معائنہ کیا گیا ہے جن میں سےایک ہزار 487 کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی کو بہترکریں جبکہ اینٹوں کےبھٹوںسمیت زیادہ آلودگی پھیلانےوالے 86 فیکٹری یونٹ عارضی طور پر بند کیے گئے ہیں۔ اسی طرح 91 افراد پر مقدمات کا اندراج بھی کیا گیا ہے جبکہ اسی دوران ماحولیاتی آلودگی سےہنگامی طورپرنمٹنےکےلیےدفعہ 144 نافذکیاگیا۔
سموگ طبی ماہرین کی نظر میں :
طبی ماہرین کے مطابق سموگ سیزن کے دوران بچوں کا دن میں باہر نکلنا ایسے ہی ہے جیسے بچوں نے ایک دن میں 30 سگریٹ پیئے ہوں۔ سموگ کے دنوں میں لوگ ماسک کا استعمال کرتے ہیں جو صر ف انکی سانس کی حفاظت کرتا ہے جبکہ آپکی آنکھیں غیر محفوظ ہوتی ہیں اس لئے عینک کا استعمال کرنا چاہیے۔اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانےسےگریزکرناچاہیےتاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرےہوئےہےتوگھرکےاندررہنےکوترجیح دیں اور کھڑکیاں بند رکھیں۔ باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینسز لگانے کی صورت میں وہ نہ لگائیں بلکہ عینک کوترجیح دیں۔ اسموگ کے دوران ورزش سے دور رہیں خصوصاً دن کے درمیانی وقت میں، جب زمین پر اوزون کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر دمہ کےشکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس انہیلر رکھیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار میر
ڈاکٹر ذوالفقار میر جو کہ ڈپلومیٹ امریکن بورڈ آف انٹرنل میڈیسن کے ساتھ ساتھ ضعیف العمر افراد کے ڈاکٹر ہیں کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو کی ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی ایک تحقیق جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ہوا کی آلودگی سالانہ ایک لاکھ 35 افراد کی جان لینے کا سبب رہی ہے۔ ان اموات میں زیاد تر اموات مشرقی بارڈر پر ہو رہی ہیں جس میں پنجاب شامل ہے جبکہ پنجاب میں سب سے زیادہ اموات لاہور ڈویژن میں ہو رہی ہیں۔اس آلودگی کا سبب ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی بن رہا ہے۔ ان کے مطابق سموگ کا 40 فیصد سبب ڈیزل والی گاڑیاں ہیں اور ان کا سد باب ہونا چاہیے۔ ہوا کو خالص بنانے والی مشینیں یا ماسک وغیرہ صرف وہ لوگ لگا سکتے ہیں جن کے پاس وسائل ہیں مگر سموگ سبھی پر اثر انداز ہو رہی ہے اس لیے ہمیں ہر لیول پر اس کی روک تھام کرنی ہوگی، جس کے لیے خاص طور پر اپنے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے تمام تر طریقے اپنانے ہوں گے۔
فیس ماسک۔ سموگ سے بچاؤ کا حل:
اگر ہم سموگ سے آلودہ کسی علاقے میں موجود ہیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ سموگ کے دوران چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھیں اور گھر کے دروازے اور کھڑکیوں کو بند کر کے رکھیں۔ فضا کو صاف کرنے والے مختلف فلٹرز اور ایسے جدید آلات دستیاب ہیں جن کو استعمال کر کے ہم اپنے گھروں، دفاتراور گاڑ یوں کی فضا کو صاف رکھ سکتے ہیں۔ مگر سموگ کے دوران یا سموگ والے علاقوں میں جانے کے لئے عام سرجیکل سبز رنگ والے ماسک استعمال نہیں کرنے چاہئیںکیونکہ سموگ میں موجود پی ایم2.5 کے ذرات اس سرجیکل والے عام ماسک کے سوراخوں میں سے بھی گزر کر پھیپھڑوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا سموگ کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں3 ایم، 95 این یا99 این ماسک استعمال کرنے چاہئیں اور سموگ میں موجود اوزون سے محفوظ رہنے کے لئے آنکھوں پر بھی حفاظتی چشمے استعمال کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ سموگ والے علاقے میں زیادہ محنت و مشقت ، بھاگنے ، دوڑنے، ورزش اور کھیل کود سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ سموگ کی وجہ سے ہوا کا پریشر زمین پر کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سانس پھولنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر سانس لینے میں مشکل پیش آ سکتی ہے اور اگر سانس اکھڑ جائے تو سانس بحال ہونے میں دقت ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایسے افراد جو پہلے سے ہی سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوں وہ اس سے زیادہ جلدی متاثر ہو سکتے ہیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں سموگ کے حالات :
چالیس فیصد امریکی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پر سموگ آلودگی کی مقدار کافی زیادہ ہے جبکہ چین جس نے دنیا میں صنعتی انقلاب برپا کر دیا ہے فضائی آلودگی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے پندرہ ممالک میں آتا ہے۔ چین میں ایک دہائی پہلے فضائی آلودگی اپنے عروج پر تھی اور چین سموگ کے حوالے سے پہلے پانچ ممالک میںآتا تھا۔ چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس اور مرکری خارج کرنے والا ملک ہے۔ چین میں فضائی آلودگی 2013میں سب سے زیادہ تھی اور اب صورت حال یہ ہے کہ فضائی آلودگی کی شرح 1990کی دہائی سے بھی نیچے آچکی ہے۔ چین نے فضائی آلودگی کے متعلق اپنے جامع پلان کا اعلان ستمبر 2013 میں کیا ۔اس پلان کے بعد چین میں فضائی آلودگی میں واضح کمی آئی۔ بیجنگ میں سموگ میں 33فیصد اور ریور ڈیلٹا میں 15فیصد کمی آئی جوکہ چین کی ماحولیات کے شعبے میں بہت بڑی کامیابی تھی۔ چین نے فضائی آلودگی میں مزید کمی کرنے کیلئے حال ہی میں امریکہ کی طرز پرکلین ائیر ایکٹ کا اجرا کیا ہے ۔دنیا میں سب سے کم فضائی آلودگی سویڈن میں ہے کنیڈاکا 10 لاکھ آبادی والا شہر کیلگری دنیا کا سب سے کم فضائی آلودگی والا شہر ہے ، جبکہ بھارت کا شہر دہلی فضائی آلودگی کے حوالے درالخلافہ کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر آتا ہے ۔دنیا میں اس وقت بنگلہ دیش فضائی آلودگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔
فصلوں کو تلف کرنے کے مختلف طریقے:
پاکستان میں بھی ہرسال فصلوں کی 19 ملین ٹن باقیات کو نذر آتش کیاجاتاہے ۔ صورتحال کےپیش نظر پنجاب میں اِس پر پابندی عائدکی جا چکی ہے۔ محکمہ زراعت فصلوں کی باقیات کو تلف کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہےکہ دھان کےڈنٹھل کو کا ٹکرز مین میں ملا دیا جائے، مڈھوں کی تلفی کےلئے گہرا ہل چلایا جائے۔
فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے حکومت کو کونسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے :
• پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ۔
• لائٹوں کے غیر ضروری استعمال پر سخت حکومتی اقدامات کرنے کی ضرروت ہے ۔
• حکومت کو ری سائیکل اور ری یوز کی پالیسی کو فروغ دینا ہو گا ۔
• پلاسٹک بیگز پر مکمل پاپندی عائد کر نی چائیےاور اس پر سزا کے لیے فوری طور پر قانون سازی کرنی چاہیے
• جنگلات کے کاٹنے اور جلانے پر پاپندی ہونی چاہیے ۔
• ائیر کنڈیشنز کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے ۔
• فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کے اثر کو کم کرنے کے لیے فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنایا جائے ۔
• شادی بیاہوں اور تہواروں پر آتش بازی پر پاپندی کے ساتھ ساتھ سزاؤں کو بھی یقینی بنایا جائے ۔
• کیمیکل سے بنی اشیا کے استعمال کو کم کیا جائے مثلاًخوشبو والے روخن کا استعمال کم کیا جائے اور کیمیائی چیزوں کی جگہ اورگینک چیزوں کے استعمال کو ترجیح دی جائے۔
• پودےلگانے کے رجحان کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر شہریوں کو حکومت کی جانب سے ایواڑز سے بھی نوازا جا نا چاہیے۔
• حکومت کیلئے ضروری ہے کہ 2017 میں متعارف کرائے جانے والے سموگ کمیشن کی 17 سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے ۔
• نومبر اور دسمبر کے مہینے میں فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سفارشات پر عمل کریں۔
• اینٹوں کے بھٹوں کو دو ماہ (نومبر اور دسمبر) کیلئے بند کر دیا جائے۔
• سموگ کے خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ زیادہ درخت لگانے سے فضا میں آلوگی کم ہو گی اور سموگ بھی کم ہو گی۔
پنجاب میں سموگ کو کنٹرل کرنے کے لیے سموگ ایکٹ 2017 :
اس ایکٹ میں قلیل مدتی اور طویل مدتی لائحہ عمل دیا گیا ۔ اس ایکٹ کے تحت پاکستان میں استعمال کیا جانے والے فیول میں سلفر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے فیول کی وہ قسم زیادہ سے زیادہ استعمال کی جائے جس میں سلفر کی کم سے کم مقدار ہو ۔یورو ٹو ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا ،اس سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں کافی مدد ملے گی۔گاڑیوں میں آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے ڈیوائس انسٹال کی جائیں گی۔سٹرکوں پر ٹریفک کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جائے گا ،اس سے بھی فضائی آلودگی کو کم کرنے مدد ملے گی ۔محکمہ زراعت فصلوں کے بقایا جات کو ماحول دوست طریقے سے تلف کرنے کا ناصر ف پلان بنائے گا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرائے گا ۔تمام میونسپل کارپوریشنز اور سولڈ ویسٹ کے محکمے یقینی بنائے گے کہ انہوں نے 75 فیصد کوڑے کو ماحول دوست طریقے سے تلف کیا ہے ۔انوائیر مینٹل مونٹرنگ سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔کسی بھی نئی فیکٹری کو اس وقت تک لائسنس نہیں دیا جائے گا جب تک اس کو انوائیر مینٹل ایجنسی کی طرف سے اجازت نامہ نہیں مل جاتا۔شہروں کے گرد جنگلات اگانے کا مناسب انتظام کیا جائے گا جس سے ماحول میں بہتری آئے گی ۔شہروں اور صنعتوں کو باقائدہ طور پر پلان کرکے بنایا جائے گا،جسےماسٹر لینڈپلان کا نام دیا جائے گا ۔سمنٹ انڈسڑی ،سٹیل انڈسٹری اور تھرمل پاور پلانٹ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کریں جس سے کم سے کم تونائی کا اخراج ہو اور خارج ہونے والی انرجی سے ماحول کو کم سے کم نقصان ہو اور اس طرح کی تمام صنعتوںمیں ماحول دوست اقدامات کا مناسب انتظام کیا جائے گا۔پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن کونسل اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ رابطے میں رہے گی اور ان کو مانیٹر کرے گی۔
حکومتِ پنجاب کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات:
رواں سال پنجاب حکومت نےسردیوں کے موسم میں سموگ سے بچنے کے لیے فصلوں کی باقیات اور کوڑےکو آگ لگانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ریلیف کمشنرپنجاب کے مطابق خلاف ورزی کی صورت میں انضباطی کارروائی اورجرمانہ عائدہوگا۔ خلاف ورزی پرپچاس ہزار روپےجرمانہ اور ایف آئی درج کرنےکاحکم دیاگیاہے۔
واضح رہےکہ گزشتہ چندسالوں سے پنجاب میں سموگ کی وجہ سے شہریوں کو گلے اور آنکھ کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سموگ کی بڑی وجہ فصلوں کی باقیات، کوڑے کو جلانا اور بھٹوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ اس کے علاوہ رواں ماہ ستمبر کے آغاز میں صاف پانی کو بچانے اور ماحول کو آلودگی سےپاک کرنے سے متعلق لاہورہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سموگ پر قابو پانے کےلئےہرضلع میں ماحولیاتی انسپکٹر تعینات کیاجائے۔
پنجاب میں ایک بار پھر سموگ کے بادل منڈلانے لگے
محکمہ ماحولیات کے مطابق لاہور میں فضائی آلودگی 170،گوجرانوالا میں188، مرید کے اور ساہیوال میں 178، راولپنڈی میں 159اور بہاولپور میں 114ریکارڈ کی گئی، لاہور کی فضا آج واضح طور پر دھندلی محسوس ہو رہی ہے۔محکمہ صحت کے حکام نے دن بدن بڑھتی فضائی آلودگی کو صحت کے لیےنقصان دہ قرار دیا ہے۔سانس، ڈسٹ الرجی اور دل کے امراض میں مبتلا افراد ،بچوں اور بزرگوں کو خصوصی طور پر احتیاط کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پنجاب میں سموگ سے بچاؤ کیلئے فصلوں کی باقیات، کورا کرکٹ جلانے اور فضائی آلودگی کا سبب بننے والی صنعتوں اور کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں صوبے میں نافذ دفعہ 144 پر عملدرآمد کرایا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے کیو آئی حساس طبعیت والے افراد کے لیے غیرصحتمندانہ ہے ۔ 580 اے کیو آئی کی شرح ہر فرد کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ اے کیو آئی صفر اور پچاس کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہوا کی کوالٹی اچھی ہے۔’ اے کیو آئی کا 51 سے 100 کے درمیان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہوا کی کوالٹی درمیانے درجے کی ہے۔ تاہم 101 سے 150 تک کی ایئر کوالٹی سے سانس کی بیماریوں میں مبتلا اور حساس طبیعت افراد کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہوا کی کوالٹی اگر 151 سے 200 کے درمیان ہو تو وہ غیر صحت بخش ہو جاتی ہے جس سے عام لوگوں کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اگر اے کیو آئی 201 سے 300 کے درمیان ہو جائے تو فوراً صحت کی ایمرجنسی نافذ کر دینی چاہیے جبکہ اگر اے کیو آئی 301 سے 500 کے بیچ ہو تو عام لوگوں کو صحت کے حوالے سے شدید نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے۔