اسلام آباد:(دنیا نیوز) آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، اس موقع پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کا 1998 سے آج تک صرف ایک کیس آیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ پارٹی سربراہ نے اس آرٹیکل کو سنجیدہ نہیں لیا۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، کینسر جسم کے سیل کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف کو بھی کینسر کہا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا جس میں پارٹی سربراہ کو وسیع اختیارات حاصل تھے، 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کے ذریعے پارٹی ہیڈ کے اختیارات کو کم کردیا گیا، اٹھارہوں ترمیم میں آرٹیکل تریسٹھ اے کے ریفرنس پر فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا، نااہلی کی کتنی معیاد ہو گی وہ آرٹیکل تریسٹھ میں دے دی گئی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کا کہنا تھا کہ آر ٹیکل 63 اے کے تحت ریفرنس نہ آنے کی وجہ سیاست میں لچک ہے، سختی سے انتشار پھیلتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں معیاد نہیں تھی جس کی تشریح سپریم کورٹ نے کی، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قانون سازوں نے آرٹیکل 63 اے میں منحرف رکن کے لیے نااہلی کا تعین نہیں کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے میں چار مواقعوں پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا گیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، عدالت نے آئین کو مجموعی طور پر دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتی، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت گھوڑے اور گدھے کو ایک نہیں کرسکتی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے۔
وکیل فاروق نائیک کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔