اخوّتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت

Published On 03 March,2023 09:21 am

لاہور: (مولانا رضوان اللہ پشاوری) اسلامی اُخوت وہ عالمگیر رابطہ وحدت اور رشتہ یگانگت ہے جو تمام جغرافیائی، نسلی، لسانی، ملکی اور وطنی حدودو قیود سے آزاد اور امتیازات سے وراء الوراء ہے۔ یہ وہ روحانی رشتہ ہے جو مادی علائق و روابط سے منزہ اور بالا تر ہے۔ وحیِ ربانی کی آیاتِ اور صاحبِ وحی و رسالت ﷺ کے ارشاداتِ مقدسہ میں اس کی تفصیلات و تمثیلات کے مستقل ابواب موجود ہیں۔

ارشادِ الٰہی ہے: ’’ تم (ایک دوسرے کے) دشمن (خون کے پیاسے) تھے، پس اللہ نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی، اب تم اس کے انعام و رحمت سے (ایک دوسرے کے) بھائی ہوگئے‘‘ (آل عمران: 103)۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ’’ایک مومن دوسرے مومن کیلئے عمارت کے رَدّوں کی مانند ہے، جس کا ایک رَدَّا دوسرے رَدّے کو مضبوط و محکم کرتا ہے، اور (آپ ﷺنے اس تمثیل کا مشاہدہ کرانے کیلئے اپنی ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر لیں اور فرمایا اس طرح‘‘)،(صحیح بخاری، ج:1، ص331)۔

’’اخوت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ’’اخ‘‘ سے بنا ہے اور اس کے معنی’’بھائی چارہ، یگانگت اور برادری‘‘ کے ہیں۔ اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اور ان کا کسی بھی رنگ ونسل اور وطن سے تعلق ہو، جو کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدﷺکے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا، جسے قرآن کریم نے ’’رشتہ اخوت اسلامی ‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس رشتہ کی عظمت و فضیلت، افادیت اور اہمیت کے حوالے سے کئی آیات اور احادیث مبارکہ موجود ہیں۔

قرآ ن پاک میں اخوت اسلامی کا ذکر
بعثت رسول ﷺ اور نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کو منظم کر دیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور عداوت کرنے والوں کو پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارہ کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضور رحمت دو عالمﷺ نے اہل ایمان کے درمیان ’’رشتہ اخوت‘‘ قائم کیا۔ اس عظیم رشتے کی بنیاد اسلام، ﷲ و رسولﷺکی محبت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک ایمان والے (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (اگر ان کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے) تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ (سورۃ الحجرات:10)۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اور اخوت اسلامی کے رشتہ کی موجودگی میں رنگ و نسل، زبان، قومیت اور علاقوں کی بنیاد پر بننے والے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔ آیت مذکورہ میں دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ ’’اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو‘‘۔ آیت کے اس حصہ سے معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں، افراد یا دو گروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے۔ ان کے قریب جو تیسرا فرد یا گروہ ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ ان میں فوراً صلح کرا دے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دو بھائیوں سے کیا جاتا ہے۔

آیت مبارکہ میں تیسرا حکم ہے کہ ’’اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ آیت کے اس حصے میں تنبیہ کی گئی کہ اہل ایمان کے درمیان اگر اختلاف ہو جائے تو تمہاری ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کو بڑھاؤ نہیں بلکہ کم کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرانے میں کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سب کے ساتھ برابری اور خیرخواہی کا سلوک کیا جائے۔

اخوت اسلامی، اللہ کی مہربانی
تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ غریب و محتاج مسلمان کی مالی امداد و اعانت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں باہمی اتحاد و یکجہتی اور امداد و اعانت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور سب مل کر اللہ کی رسی (پیغام ہدایت) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اور اللہ کی اس مہربانی (انعام) کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی، اور تم اس کی نعمت کی بدولت بھائی بھائی بن گئے‘‘ (آل عمران: 103)۔

اخوت اسلامی اور ارشاداتِ رسولﷺ
رسول اللہ ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اس کو رسوا کرتا ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو‘‘ (ابن ماجہ)۔

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے : ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کیلئے وہی چیزپسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، جامع ترمذی،ابن ماجہ)۔ اس حدیث پاک میں ایمان کی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت کو بیان کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے وہی کچھ پسند کرتا ہے جو وہ اپنی ذات کیلئے پسند کرتا ہے۔ اس حدیث کے اندر یہ اشارہ ہے کہ جس طرح کوئی اپنے لئے نقصان اور برائی پسند نہیں کرتا تو اسے چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی کسی نقصان اور برائی کے عمل میں شریک نہ ہو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اللہ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا کرے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی (کسی عیب یا غلطی کی) پردہ داری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ پوشی کرے گا‘‘ (سنن ابو داؤد)۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو رسوا کرے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المظالم و الغصب، الحدیث: 2442) ۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’’(حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت و تکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘ (متفق علیہ)۔

رسول اﷲﷺ نے اپنے بے شمار ارشادات اور فرامین میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا اور حقیقی مسلمان کی نشانی یہ فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت و تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ ہر حالت میں سے راحت و سکون اور سلامتی ملتی ہے۔

رضوان اللہ پشاوری ایک عالم دین ہونے کے ساتھ صحافی بھی ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔
 

Advertisement