لاہور: (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) اسلامی تاریخ میں غزوہ اُحد حق و باطل کا دوسرا معرکہ ہونے کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہ غزوہ 3 ہجری میں پیش آیا، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں، کچھ کے نزدیک یہ واقع 3شوال، کچھ کے نزدیک 7 شوال، بعض کے مطابق 11 شوال اور بعض کے نزدیک 15 شوال کو پیش آیا، البتہ اس کے دن پر سب متفق ہیں کہ یہ ہفتہ کے روز ہوا تھا۔
اُحد مدینہ منورہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ آقائے کائنات کا ارشاد گرامی ہے کہ اُحد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، غزوہ اُحد میں مسلمانوں کی تعداد 700 تھی، جس میں زرہ پوش صحابہ کرامؓ 100 تھے، قریش کا لشکر تین ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا، جن میں سات سو افراد زرہ پوش تھے، اس معرکہ حق و صداقت میں جام شہادت نوش کرنے والے خوش نصیب صحابہ کرامؓ کی تعداد 70 تھی جبکہ 30 کافر واصل جہنم ہوئے۔
مشرکین کے لشکر کی قیادت حضرت ابوسفیان کے پاس تھی (یاد رہے کہ وہ اس وقت حالت کفر میں تھے) اور انہوں نے 3 ہزار سے زائد مشرکین کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی، مسلمانوں کی قیادت جناب نبی کریم ﷺ نے کی، اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی اس کے بعد قریش مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے، شکست کھانے کے بعد مشرکین مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی ناکامی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی، جنگ کے شعلے بھڑکانے میں حضرت ابوسفیان، ان کی بیوی ہندہ (جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا) اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں
ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں، جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی، حضرت ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے، ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری حضرت ابوسفیان کے پاس تھی، جس کی قیادت میں مکہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے، اس مقصد کیلئے مال و دولت بھی اکٹھا کیا گیا، جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی، 3 ہزار سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے 7 سو زرہ پوش تیار کئے گئے[ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 او نٹ بھی تیار کئے گئے، کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔
نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ جو مکہ ہی میں رہتے تھے نے آپﷺ کو مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا، حضورﷺ نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے، فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو استقامت کی تلقین کی اور ایک ہزار کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوگئے، اشواط کے مقام پر ایک منافق عبداللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہوگیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔
ہفتہ 7 شوال 3ھ کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آگئیں، احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا، وہاں ایک درہ پر حضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی قیادت میں 50 تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے، نبی کریم ﷺ نے انھیں یہ حکم دیا تھا کہ وہ کسی صورت میں بھی درہ نہ چھوڑیں۔
حق و باطل کے اس دوسرے بڑے معرکہ میں عرب کے رواج کے مطابق پہلے مبارزت ہوئی جس میں اہل اسلام کا پلہ بھاری رہا، بعدازاں عام لڑائی شروع ہوئی تو حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابو دجانہؓ اور حضرت حنظلہؓ کے تابڑ توڑ حملوں سے کفار جہنم واصل ہوئے، مشرکینِ مکہ نے اکٹھے بھرپور حملہ کیا، اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں، ابتداء کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے، مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کی یہ ہدایت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا، صرف 10 افراد درہ پر رہ گئے۔
حضرت خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا، پیچھے سے ہونے والے اس ناگہانی حملے میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے، جن میں سرکارِ دوعالم ﷺ کے پیارے چچا سیدنا حضرت امیر حمزہؓ بھی شامل تھے، یہ وقت مسلمانوں پر بہت کڑا تھا، ایسا لگا کہ کفار کو فتح مل گئی ہے۔
اس صورتحال میں نبی کریم ﷺ کو کچھ جانثاروں نے اپنے گھیرے میں لے لیا اور مسلمانوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا مگر اتنی دیر میں 70 صحابہ کرام شہادت کا جام پی چکے تھے، جب مسلمانوں کو اکٹھا ہوتے ہوئے دیکھا تو ابوسفیان نے وہیں سے آواز لگائی کہ آج بدر کا حساب برابر ہو گیا ہے، اب اگلے سال پھر بدر کے مقام پر لڑائی ہوگی اور کفار واپس مکہ اپنے گھروں کو چلے گئے۔
اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: ’’جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہﷺ اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے، پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے‘‘ (آل عمران: 153)۔
حضرت ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا جس کا نبی کریم ﷺ کو بے حد رنج رہا، اس غزوہ میں بہت سی مسلم خواتین نے شرکت کی، حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ کی والدہ حضرت اُم سلیمؓ نے زخمیوں کو پانی پلانے کا فریضہ سر انجام دیا، وہ مشک بھر بھر کر لاتیں اور زخمیوں کو پلاتی تھیں۔
اس معرکہ میں بہت سے ایمان افروز واقعات پیش آئے، حضرت حنظلہؓ اس معرکہ میں باطل پرستوں سے اپنے ایمانی جذبے سے مقابلہ کرتے ہوئے قریشی لشکر کے وسط میں جا پہنچے اور قریش کے سردار ابوسفیان کا کام تمام کرنے ہی والے تھے کہ پیچھے سے ان پر شداد نامی بدبخت نے وار کر دیا اور آپؓ شہادت سے سرفراز ہوئے، جب میدان جنگ تھم گیا تو اللہ کے محبوبﷺ نے آپؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ حنظلہؓ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔
اہل اسلام کا پرچم سیدنا حضرت معصبؓ بن عمیر کے ہاتھ میں تھا، ایک بدبخت آپؓ پر حملہ آور ہوا اور آپؓ کے دائیں ہاتھ پر اس طرح وار کیا کہ آپؓ کا دایاں ہاتھ شہید ہوگیا، آپؓ نے پرچم اسلام کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ لیا، اس بدبخت نے دوبارہ ضرب لگائی اور آپؓ کا دوسرا ہاتھ مبارک بھی تن سے جدا کر دیا، آپؓ نے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے تھامے رکھا اور بلند آواز میں آیتِ مبارکہ پڑھی، آپؓ پر تیر سے وار کیا گیا اور آپؓ نے بھی جام شہادت نوش فرمایا۔
جب منافقوں نے حضور پاک ﷺ کے شہید ہونے کی افواہ پھیلائی تو ایک انصاری صحابیہؓ مدینہ پاک سے اُحد کی طرف نکل پڑیں، راستے میں ان کے والد کے شہید ہونے کی انہیں خبر ملی تو اس عاشق رسول ﷺ صحابیہ نے کہا کہ مجھے رسول ﷺ کے بارے میں بتائیں، پھر ان صحابیہؓ کو ان کے شوہر اور بھائی کی شہادت کی خبر دی گئی تو انھوں نے یہی کہا مجھے اپنے رسول کریم ﷺ کے بارے میں جاننا ہے کہ وہ کس حال میں ہیں؟، جب انہیں بتایا گیا کہ رسول خدا ﷺ خیروعافیت سے ہیں تو عرض کرنے لگیں کہ مجھے حبیب کریم ﷺ کا دیدار کرنے دو، جب حضور پاک ﷺ کا دیدار نصیب ہوا تو انہیں سکون ہوا۔
غزوہ اُحد میں حضرت قتادہ بن نعمانؓ کی آنکھ تیر لگنے سے باہر نکل آئی، حضرت قتادہؓ اپنی آنکھ ہاتھ میں اٹھائے بارگاہ کونین ﷺ میں حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا اے قتادہؓ اگر تم چاہو تو صبر کر لو جنت تمہارے لئے ہے اور اگر تم چاہو تو آنکھ لوٹا دوں، حضرت قتادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! یقیناً جنت بڑی جزا اور عظیم عطا الہٰی ہے، یارسول اللہ ﷺ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپﷺ جنت بھی عطا فرما دیں اور آنکھ بھی لوٹا دیں، اللہ کے رسولﷺ نے اپنے دست رحمت سے ان کی آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ دیا اور اس آنکھ کی روشنی پہلے سے زیادہ ہوگئی، پھر آپﷺ نے ان کیلئے جنت کی دعا بھی فرمائی۔
معرکہ اُحد میں جب حضرت عبداللہ بن حجشؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپؓ نے عرض کیا! یا رسول اللہ ﷺ! میری تلوار ٹوٹ گئی ہے تو اللہ کے محبوب کریم ﷺ نے انھیں کھجور کی چھڑی عطا فرمائی، جب انہوں نے کھجور کی چھڑی اپنے ہاتھ میں لی تو وہ فوراً ہی تلوار بن گئی، اللہ شہدائے اُحد کے صدقے امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق عطا فرمائے اور ہماری اجتماعی انفرادی مشکلات کو آسان فرمائے اور ان کے درجات کو مزید بلند فرمائے، آمین۔
مولانا محمد سلمان عثمانی ختمِ نبوت اسلامک سنٹر کے ناظم اور کالم نگار ہیں، ان کے مضامین بیشتر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔