اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی آڈیو لیک پر خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف حکمِ امتناع میں توسیع کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت کی، دورانِ سماعت بیرسٹر اعتزاز احسن اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور عدالتی معاون پیش ہوئے، پٹیشنر نجم الثاقب کے وکیل سردار لطیف کھوسہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کچھ آئینی نکات پر آپ کی معاونت چاہیے ہوگی جس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور نے موقف اپنایا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، جو سوالات سپریم کورٹ میں زیر بحث ہیں ان پر فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ ہمارے 5 سوالات پر ہی معاونت کریں کیونکہ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ میں ہی جانا ہے، ہو سکتا ہے ہم کوئی فیصلہ دیں تو وہ سپریم کورٹ کیلئے معاونت ہو۔
وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، حکومت چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے جوڈیشل کمیشن بنا سکتی ہے؟ حکومت کو چاہیے تھا کہ چیف جسٹس سے مشاورت کرتی اور وہ ججز نامزد کرتے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو عدالتی سوالات کے جواب دینے میں کتنا وقت چاہیے ہوگا؟ عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو چار ہفتے کا ٹائم دیتے ہیں چار ہفتوں میں عدالتی سوالوں کا جواب جمع کروائیں اور اس کی نقول فریقین کو بھی فراہم کریں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو چار ہفتوں میں جواب کروانے کی ہدایت دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کر دی جبکہ درخواست پر سماعت 16 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔
عدالت کے سوالات
عدالت نے عدالتی معاونین سے آڈیو ریکارڈنگ کے معاملے پر معاونت طلب کر رکھی ہے۔
عدالت نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟۔
غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی؟
کون سی اتھارٹی یا ایجنسی کس میکنزم کے تحت کالز ریکارڈ کر سکتی ہے؟۔
آڈیو ریکارڈنگ کا غلط استعمال روکنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟