محمود غزنوی: علم پرور حکمران

Published On 17 July,2023 09:26 am

لاہور: (مقصود احمد) دسویں صدی عیسوی سلطنت عباسیہ کا زوال شروع ہوا، اس کے دارالخلافے اور دیگر کئی علاقوں میں آزاد ریاستیں قائم ہونے لگیں، اسی دوران خراسان کی فوجوں کے سالار الپگتین، جو ایک ترک غلام تھے، نے بھی بغاوت کی اور 962ء میں آزاد ریاست کے طور پر ’’غزنہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔

963ء میں ان کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا ابو اسحاق ابراہیم حکمران ہوا اس کے بعد حکمرانی الپگتین کے غلام سبکتگین کے حصے میں آئی، 997ء میں سبکتگین کی وفات ہوئی تو اس کے بڑے بیٹے محمود کو حکومت ملی، اس وقت اس کی عمر محض 27 سال تھی اور اس وقت اس کے پاس صرف غزنی کی حکومت تھی، کچھ عرصے بعد وہ خراسان پر بھی قبضہ کر چکا تھا، اس موقع پر عباس خلیفہ القادر باللہ نے انہیں غزنہ اور خراسان کا والی تسلیم کیا۔

محمود غزنوی کے والد سبکتگین کے دور سے پنجاب کا راجہ جے پال دوبار شکست کھانے کے بعد باقاعدہ خراج ادا کر رہا تھا، مگر سبکتگین کے انتقال کے بعد اس نے نہ صرف خراج بند کر دیا بلکہ وہ غزنہ پر حملے کا منصوبہ بنانے لگا اور ابتدائی طور پر غزنہ کے ماتحت شہر پشاور پر حملہ کر دیا، محمود غزنوی نے جوابی حملہ کیا اور ایک بار پھر جے پال کو شکست ہوئی اور وہ محمود غزنوی کا قیدی بن گیا، محمود غزنوی نے اسے 8 ماہ بعد اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آئندہ بغاوت نہیں کرے گا، واپس آ کر اس نے خود کشی کر لی۔

محمود غزنوی نے درہ خیبر کے مشرق یعنی برصغیر پر سترہ حملے کئے، اس نے پہلا حملہ 1000ء میں کیا، اس کا بڑا حملہ قرامطیوں کے خلاف تھا جو مسلمان بستیوں پر حملے کیا کرتے تھے، محمود کے حملے کے بعد اس کا سردار تو فرار ہوگیا مگر فوج قلعہ بند ہوگئی، 7 روز کے محاصرے کے بعد قلعہ فتح ہوا، اس کے بعد ملتان براہ راست غزنی حکومت کا حصہ بن گیا، یہاں محمد بن قاسم کے دور کی ایک مسجد بھی تھی جسے قرامطیوں نے بند کرا دیا تھا، محمود غزنوی کے حکم سے اس مسجد کو دوبارہ کھولا گیا۔

محمود غزنوی جب کسی جنگ کیلئے روانہ ہوتا تو میدان جنگ میں خیمے لگنے کے بعد وہ مقابلے سے پہلے والی رات عبادت میں بسر کرتا تھا اور اللہ سے کامیابی کے لئے کڑ گڑا کر دعائیں مانگتا، اسے سخت سردی میں گرم پانی نہیں ملا تو اس نے ٹھنڈے پانی سے ہی وضو کیا، ایک بار خادم نے کہا ’’ حضور! صبح جنگ ہونی ہے، آج کی رات تو آپ آرام کر لیجئے، فرمایا ’’ میرا کام آج کی رات ہی تو ہے، کل کا کام اللہ کا ہے‘‘، وہ دعا میں اللہ سے فریاد کرتے کہ الٰہی ہم دو فریقوں میں جو ترے بندوں کے حق میں بہتر ہو، اسے فتح عطا فرما‘‘۔

محمود غزنوی نے ہمیشہ ان راجوں مہاراجوں کے ساتھ جنگ کی جنہوں نے مخلوق خدا کیلئے زمین تنگ کر دی تھی، وہ حافظ قرآن تھے، انہیں علم حدیث سے بھی بے حد محبت اور رغبت تھی، حدیث سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ رات کے وقت علماء کرام کے ساتھ ان کی نشست ہوتی، علمائے کرام احادیث بیان کرتے جاتے اور وہ پوری توجہ سے سنتے۔

فارسی شاعری کو بھی فروغ دینے میں محمود غزنوی پیش پیش رہے، ان کے دربار سے 400 فارسی شعراء وابستہ تھے، ان کی علم دوستی کا یہ نتیجہ نکلا کہ دور و نزدیک سے علم و فن سے وابستہ افراد غزنی میں جمع ہونا شروع ہوگئے، محمود غزنوی ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے، مؤرخین کے مطابق وہ ہر سال علماء اور شعراء کی حوصلہ افزائی کیلئے چار لاکھ دینار خرچ کیا کرتے تھے۔

محمود غزنوی کے دربار سے ایک اور اہم شخصیت بھی وابستہ تھی وہ مسلمان سائنسدان، سیاح، فلسفہ اور ریاضی سمیت کئی علوم کے ماہر ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی تھے، محمود غزنوی ان کی بے حد قدر کیا کرتے تھے، البیرونی نے یہاں آ کر سنسکرت زبان سیکھی اور عربی سے سنسکرت اور سنسکرت سے عربی زبان میں نہایت قیمتی کتب کے ترجمے کئے ان میں کتاب الہند اور آثار الباقیہ مشہور ہیں۔

یہ کتب تاریخی معلومات کا گراں قدر خزانہ ہیں، اس کے علاوہ فارسی زبان کا لازوال شاعر فردوسی بھی انہی کے دربار سے وابستہ تھا، فردوسی کی شہرہ آفاق نظم ’’شاہنامہ‘‘ فارسی ادب کا خزانہ ہے، اس میں جنگوں کی تفصیل ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ہزار سال قبل جنگی آلات کی صورت حال کیا تھی، محمود غزنوی نے اس عظیم شاعر کی ہر ممکن سرپرستی کی۔

محمود غزنوی کے دور میں ہی لاہور علم و ادب کا گہوارہ بنا، اس کے علاوہ غزنی میں بھی ایک بڑی یونیورسٹی قائم ہوئی، جس کے ساتھ ہی ایک بڑا کتب خانہ تھا جس میں دنیا بھر سے نایاب کتب جمع کی گئی تھیں، یونیورسٹی میں ایک عجائب گھر بھی تھا جہاں دنیا بھر کی نادر و نایاب اشیاء کا بڑا ذخیرہ تھا، محمود غزنوی کی علم پروری کا یہ عالم تھا کہ وہ جو بھی شہر فتح کرتا وہاں کی علمی کتابیں اکٹھی کر کے غزنی لے آتا اور اس شہر کے عالموں اور ماہرین کو بھی غزنی چلنے کی دعوت دیتا، اس کے علاوہ غزنی میں مساجد اور دیگر خوبصورت عمارتوں کا حسن جھلکتا تھا۔

ایک انگریز مورخ کے بقول پوری خلافت عباسیہ میں کوئی شہر غزنی کی عمارتوں کی شان و شوکت جیسا نہیں تھا، عدل و انصاف کا بول بالا رکھنے کیلئے محمود غزنوی نے ہر شہر میں قاضی مقرر کئے تھے جو اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔

محمود غزنوی کی سب سے بڑی فتح، سومناتھ کی فتح ہے، اسے سومناتھ کا فاتح بھی کہا جاتا ہے، محمود غزنوی کو اطلاعات تو مل رہی تھیں کہ گجرات اور کاٹھیاوار میں ہندو، عرب تاجروں کے جہاز لوٹ لیتے ہیں اور گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہو رہی ہیں وہیں قریب مسلمان تاجروں کی بستی تھی، جہاں ایک متقی بزرگ محمد بن حسن عراقی رہتے تھے، ان سے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اور انہوں نے محمود غزنوی کو خط لکھا کہ وہ آ کر مسلمانوں کو اس مصیبت سے نجات دلائیں۔

محمود غزنوی ملتان سے ہوتا ہوا صحرا عبور کر کے طویل سفر کے بعد سومناتھ پہنچے، فوج نے شہر کا محاصرہ کر لیا، تیروں کی بارش میں بھی مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری اور فصیل پر چڑھ کر قبضہ کر لیا، یہاں تاریخی طور پر محمود غزنوی کے اس حملے کو دولت کا حصول قرار دیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیوں کہ سومناتھ کے بت کو نہ توڑنے کے عوض انہیں بڑی رقم کی پیش کش کی گئی تھی جسے انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں بت شکن( بتوں کو توڑنے والا) ہوں ۔

مقصود احمد شعبہ صحافت سے منسلک اور طویل عرصہ سے ’’دنیا ‘‘ میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں۔