قائداعظم نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اسے آگ لگائی گئی: سپریم کورٹ

Published On 08 July,2024 11:59 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مدوخیل نے ریمارکس دیئے کہ قائد اعظم نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اسے آگ لگائی گئی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 5 ہفتوں سے فیملی کو ملزمان سے ملنے نہیں دیا جا رہا، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملزمان کو برے حالات میں رکھا گیا ہے۔

ملاقات نہیں ہوئی تو کیسے پتا برے حالات میں رکھا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر ملاقات نہیں ہوئی تو کیسے پتا برے حالات میں رکھا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جو لوگ پہلے ملے انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاتھ بندھے تھے۔

اس موقع پر حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے بیٹے سے جو آخری ملاقات ہوئی ہے وہ اس عدالت کی مہربانی سے ہوئی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر ملزمان کو ایسے دکھایا گیا ہے تو غلط ہے، بہتر ہوگا اس کیس کو چلا کر فیصلہ کریں۔

حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ میری متفرق درخواست ہے بیٹے سے متعلق اسی کو نمبر لگوا دیجیے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت اپیل سن رہے ہیں، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست لی تو نہ جانے اور کتنی درخواستیں آجائیں گی، اصل کیس رہ ہی جائے گا۔

میرا بیٹا 11 ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر ہے، بتائیں آئین میں یہ کہاں لکھا ہے؟ حفیظ اللہ نیازی

حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ مولانا ابو الکلام نے کہا تھا سب سے بڑی نا انصافی جنگ کے میدانوں میں یا انصاف کے ایوانوں میں ہوتی ہے۔

اس دوران حفیظ اللہ نیازی نے آئین پاکستان کو ہاتھ میں اٹھایا اور کہا کہ میرا بیٹا 11 ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر ہے، بتائیں آئین میں یہ کہاں لکھا ہے؟

بعد ازاں اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان سے فیملی ملاقاتوں کا معاملہ حل ہو چکا تھا، حیرانی ہے کہ ملاقاتیں نہیں ہو رہیں، ہماری اپیل منظور ہوتی ہے تو ملزمان فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکیں گے، ملزمان ملٹری کورٹس کے علاوہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک آ سکیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جناح صاحب نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اسے آگ لگائی گئی۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے والے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ کیا کہ آپ کوئی متوازی عدلیہ چاہتے ہیں؟ ہم نے تو عدلیہ کیلئے بہت کوشش کی تھی۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ دیکھیں، اس فیصلے کی روشنی میں بتائیں اس اپیل کا سکوپ کیا ہے؟ کیا ایسی اپیل میں ہم صوبوں کو سن سکتے ہیں؟ حامد خان صاحب آپ کی فریق بننے کی درخواست کیسے سنی جا سکتی ہے؟

حامد خان کی لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے فریق بننے کی درخواست منظور

اس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ میں نے لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کو ہم ویسے معاون کے طور پر سن لیں گے، آپ بار کی جانب سے کیوں فریق بننا چاہتے ہیں؟ حامد خان نے جواب دیا کہ بار کی ایک اپنی پوزیشن ہے اس معاملے پر۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا ہے تو آپ کو پہلے اصل کیس میں سامنے آنا چاہیے تھا۔

جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ انٹرا کورٹ اپیلوں میں تو صوبوں کو بھی نہیں سنا جانا چاہیے تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ ہمارا وقت ضائع نہ کریں اصل کیس چلنے دیں، آپ نے بات کرنی ہے تو دیگر وکلا کی معاونت کر دیجیے گا۔

بعد ازاں عدالت نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ حامد خان کو فریق بنانے پر آپ کیا کہتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ مجھے اس مشکل میں نہ ڈالیں، میں نے اس کیس کو براہ راست نشر کرنے کی متفرق درخواست دائر کی ہے۔

جسٹس امین الدین نے بتایا کہ براہ راست نشر کرنے کی سہولت صرف کورٹ روم ون میں ہے۔

فیصل صدیقی نے سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی

بعد ازاں فیصل صدیقی نے سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی، انہوں نے کہا کہ عدالت اس کیس کا جلد فیصلہ کرے، میں ایسی درخواست کی پیروی نہیں کرتا۔

بعد ازاں وکیل حامد خان کی فریق بننے کی درخواست 2-5 سے منظور کر لی گئی۔

اس موقع پر انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں پڑھ کر سنایا۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ہم نے اس کو نظر ثانی کے سکوپ میں ہی دیکھنا ہے یا مکمل اپیل کے طور پر؟ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق رولز بنانے تھے جو ابھی نہیں بنے، یہ رولز اب تک بن جانے چاہیے تھے، انٹرا کورٹ اپیل کو لاء ریفارمز ایکٹ کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو چیزیں اصل کیس میں فیصلہ دینے والے بنچ کے سامنے نہیں تھی وہ اب آپ دلائل میں نہیں اپنا سکتے، خیبرپختونخوا حکومت نے اپیل واپس لی تو اٹارنی جنرل آپ نے کہا کہ یہ پہلے کابینہ منظوری لائیں، جن صوبوں نے یہ اپیلیں دائر کی ہیں کیا انہوں نے کابینہ سے منظوری لی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری نظر میں اپیل کیلئے کابینہ منظوری نہیں چاہیے، اگر کابینہ منظوری لازم ہوئی تو پھر ٹیکس مقدمات میں بھی چاہیے ہوگی، جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ آپ رولز میں سے بتا دیجیے گا کہ کیسے اپیل ہوتی ہے۔

اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت 11 جولائی تک ملتوی کر دی۔

حکمنامہ لکھوا دیا

بعد ازاں عدالت نے حکم نامہ لکھوا دیا، حکم نامے کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بار کی فریق بننے کی استدعا منظور کی جاتی ہے، فیصل صدیقی نے بتایا کہ وہ براہ راست نشریات کی درخواست کی پیروی نہیں چاہتے، حفیظ اللہ نیازی نے بتایا ان کے بیٹے گرفتار ہیں، فریقین نے بتایا کہ ملزمان سے فیملی کی ملاقات نہیں ہو رہی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان سے ملاقاتوں کا معاملہ حل ہو چکا تھا، حیرانگی ہے کہ ملاقاتیں نہیں ہو رہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ملزمان سے فیملی ممبران کی ملاقاتیں یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔

واضح رہے کہ پانچ رکنی لارجر بنچ نے 23 اکتوبر 2023 کو فوجی عدالتوں میں 9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 سویلین کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔