لاہور: (ارسہ مبین) ہمارے گردوپیش میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو دائیں ہاتھ کے بجائے ہر کام کیلئے بایاں ہاتھ استعمال کرتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کا بائیں ہاتھ سے کام کرنا اس کے موروثی عوامل کا مرہون منت نہیں، ان میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جو دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
بائیں ہاتھ سے ہر کام کو ترجیح دینے اور سہولت سے انجام دینے والے دنیا بھر کے کل 13 فیصد مرد اور 11 فیصد خواتین ہیں، بعض معاشروں میں ان کی مجموعی تعداد 20 فیصد تک بھی ہوتی ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ مشاہیر سیاسی رہنماؤں میں بائیں ہاتھ والوں کی تعداد 50 فیصد ہے، بائیں ہاتھ والے سیاستدان خوبصورتی کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ہیں۔
13 اگست کو دنیا بھر میں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، ’’لیفٹ ہینڈرز ڈے‘‘ یعنی ’’بائیں ہاتھ والوں کا دن‘‘ منانے کا مقصد ایسے افراد کی انفرادیت کا اعتراف کرنا اور ان کو درپیش چھوٹے چھوٹے مسائل کا احساس کرنا ہے، اس کا ایک پہلو بائیں ہاتھ والے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اپنے ہم عمر دائیں ہاتھ والے بچوں کے بیچ خود کو مختلف اور غیر شناسا محسوس کرتے ہیں۔
اس دن کو منانے کا آغاز 1976ء میں ایک امریکی فوجی اہلکار ڈین کیمپبل نے کیا تھا جنہوں نے لیفٹ ہینڈرز انٹرنیشل نامی ادارے کی بنیاد بھی ڈالی تھی، برطانیہ میں اس دن اہم تقاریب منعقد ہوتی ہیں، ان تقاریب کا مقصد بائیں ہاتھ والوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔
سائنس دانوں نے اس بات پر تحقیق کی کہ لوگ ’’لفٹ ہینڈر‘‘ کیوں ہوتے ہیں؟ ان کے مطابق جڑواں بچے، جو ایک ہی جین کا اشتراک کرتے ہیں، بعض اوقات ان کے ہاتھ مختلف ہو سکتے ہیں، یہ حمل میں کشیدگی سے بھی منسلک ہے، ایک برطانوی تحقیق میں، انتہائی دباؤ والی حاملہ خواتین کے بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے بچوں کی پیدائش کا امکان ہوتا ہے، دیگر شواہد اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔
2008ء میں کی گئی ایک سویڈش تحقیق کے مطابق جو خواتین اپنے حمل کے دوران افسردہ، پریشان یا تناؤ کا شکار رہتی ہیں ان کے بائیں ہاتھ والے بچے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
جڑواں بچوں میں عام لوگوں کے مقابلے میں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے تقریباً دوگنا ہوتے ہیں، 1996ء میں بیلجیئم میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ تقریباً 21 فیصد جڑواں بچے بائیں ہاتھ والے ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بائیں ہاتھ سے کام کرنا کوئی عادت نہیں بلکہ اس کا براہ راست تعلق دماغ سے ہے اور ایسے افراد تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، ایسے افراد زندگی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق امریکی صدور میں بارک اوباما، بل کلنٹن، بش سینئر، ریگن، جیمز، ہوور،ہیری اور فورڈر لیفٹ ہینڈر تھے۔
اس کے علاوہ قدیم حکمرانوں میں سکندر اعظم، جو لیس سیزر، نپو لین بو نا پارٹ، ونسٹن چرچل اور ہوگو شاویز بھی الٹے ہاتھ سے کام کرتے تھے، دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جبکہ اس فہرست میں ارسطو، آئن سٹائن، نیل آرم سٹرانگ، نیوٹن، مارک ٹوین، کا فکا، مارلن منرو، جولیا رابرٹس، انجلینا جولی، چارلی چپلن کا نام آتا ہے، کرکٹ میں وسیم اکرم، برائن لارا اور گیری سوبرز نے بھی بائیں ہاتھ سے نام کمایا ہے۔
بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد آبادی کے صرف 10 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہیں صحت کے حوالے سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں، 2013ء کی ییل یونیورسٹی کے مطالعے کے مطابق، جو لوگ بائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں ان میں شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی امراض کا زیادہ خطرہ زیادہ ہوتاہے، جب محققین نے دماغی صحت کے کلینک میں مریضوں کی رائے شماری کی تو شیزوفرینیا والے 40 فیصد نے کہا کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں، ایسے لوگوں کی طبیعت میں خشک پن پایا جاتا ہے۔
2007 کے اسکاٹ لینڈ کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں میں خوفناک فلم کے کلپس دیکھنے کے بعد پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی علامات ظاہر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، ایک برطانوی تحقیق کے مطابق بائیں بازو کے لوگوں میں آنتوں کے مسائل جیسے کرون کی بیماری اور السرٹیو کولائٹس کا شکار ہونے کا امکان دائیں ہاتھ والوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتا ہے۔
’’برٹش جرنل آف کینسر‘‘ میں 2007ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بائیں ہاتھ والوں کو چھاتی کے کینسر کا خطرہ دائیں ہاتھ والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، 2015ء کی ایک تحقیق کے مطابق بائیں ہاتھ والے لوگ دائیں ہاتھ والے لوگوں کے مقابلے میں فالج اور دماغ سے متعلق دیگر چوٹوں سے تیزی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
ارسہ مبین گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں اردو لٹریچر کی طالبہ اور شاعرہ ہیں، ان کے کالج کے میگزین سمیت مختلف جرائد میں ادبی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔