لاہور: (خاور گلزار) سردیوں کی آمد آمد ہے اور موسم سرما کے شروع ہوتے ہی ہر سو خشک میوہ جات کی بہار آجاتی ہے، یہ میوے مختلف قسم کی نمکین اور میٹھی ڈشز میں استعمال ہوتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے خیال میں خشک میووں میں چکنائی اور حرارے بہت زیادہ ہوتے ہیں جو صحت کے لئے نقصان دہ ہیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ خشک میوے اگر اعتدال سے استعمال کئے جائیں تو بے حد فائدہ دیتے ہیں، اگر ہم گری دار میووں کا استعمال ترک کر دیں گے تو پھر ہم پروٹین اور معدنیات سے محروم ہو جائیں گے۔
سردیوں کے موسم میں ہمیں اپنی صحت کی بہتری کیلئے خشک میوے ضرور استعمال کرنے چاہئیں، ان گری دار میووں میں ایک خوش ذائقہ میوہ کاجو بھی ہے، کاجو جنوبی بھارت کے جنگلوں میں کاشت کیا جاتا ہے، اس کے درخت کی بلندی دس سے بارہ میٹر تک ہوتی ہے، اس درخت سے زرد مائل رنگ کا گوند نکلتا ہے، اس کی شاخوں سے چار انگشت ٹوپی جیسی کلی نکلتی ہے، پھر اس میں مخروطی شکل کا پھل لگتا ہے جس کی پیندی چوڑی ہوتی ہے، سر پتلا اور بے نوک ہوتا ہے۔
اس پھل کا چھلکا بہت نرم ہوتا ہے جو اوپر سے سرخ یا زردی مائل ہوتا ہے، اس کی بو تیز ہوتی ہے اور مغز میٹھا ہوتا ہے، اس پھل کے نیچے سے دو رگیں دو خطوں کی طرح نکلتی ہیں، ان دونوں کے درمیان دو بیج بندھے رہتے ہیں جن کی شکل گودے جیسی ہوتی ہے، پتلے چھلکوں کے اندر سفید مینگ سی ہوتی ہے جس کا مزا نہایت شیریں اور لذت سے بھرپور ہوتا ہے، کھانے میں بادام سے مشابہت رکھتا ہے اور ذائقہ دار ہوتا ہے، بس یہی کاجو کا بیج ہے۔
کاجو کا درخت Anacardiaceae خاندان سے تعلق رکھتا ہے، یہ سدا بہار درخت ہے جو 12 میٹر تک بلند ہوتا ہے، اس کی پتّیوں کے باہر کی جانب ایک گنبد نُما تاج یا سائبان ہوتا ہے جہاں اس کے پھول اور پھل پیدا ہوتے ہیں، اس کا پھل گردے کی شکل کا بیج ہوتا ہے اور یہ 3 سینٹی میٹر لمبا اور 1.2 سینٹی میٹر چوڑا ہوتا ہے، یہ ایک بڑے برتن نُما‘ ڈنٹھل دار اور پھولے ہوئے پھل سے منسلک ہوتے ہیں جو کاجو ایپل (cashew apple) کہلاتا ہے اور اس پھل کی شکل ناشپاتی سے ملتی جلتی ہے۔
کاجو ایپل کا رنگ چمکدار لال سے پیلا ہوتا ہے، یہ نرم اور رسیلا ہوتا ہے اس کے چھلکے کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے جب اس کے گودے کا چِھلکا اتارا جاتا ہے تو یہ کاجو (یا کاجو کی گِری) کہلاتا ہے، یہ تجارتی مقاصد کے تحت ہندوستان اور برازیل میں بکثرت کاشت کیا جاتا ہے۔
اس کے چھلکے سے تیل نکلتا ہے، اس کا رنگ سیاہ اور مزا تلخ ہوتا ہے جسے جلد پر لگانے سے چھالے پڑ جاتے ہیں مگر لکڑی کو محفوظ رکھتا ہے، اس میں گائے کے قیمے جتنا فولاد ہوتا ہے، اسے کھانے سے جسم میں خون کی کمی دور ہو جاتی ہے، کاجو میں جست بھی پایا جاتا ہے جو جسم کی معمول کی افزائش کیلئے مفید ہے، یہ جسم کے مدافعتی نظام کیلئے مفید ہے، تاہم ہائی بلڈ پریشر یا دل کے مریض افراد نمکین کاجو سے پرہیز کریں، کاجو میں تانبا اور مینگنیز بھی خوب ہوتا ہے، یہ عضلات کیلئے اچھا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اس میں فاسفورس، مینگنیزیم، جست وٹامن بی اور فولیٹ کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔
اسیے کھانے سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے، ایک خیال یہ بھی ہے کہ کاجو اور دیگر گری دار میووں کے استعمال سے وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے حالانکہ اس میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے، سو گرام کاجو میں 600 حرارے اور 60 گرام چکنائی ہوتی ہے، کاجو کے استعمال کے طریقے نہار منہ شہد کے ساتھ کھانے سے نسیان کے مرض میں افاقہ ہوتا ہے، یہ ٹھنڈے مزاج افراد کیلئے بھی مفید غذا ہے۔
کاجو کے پھل کا رس ورم میں ہونے والے درد کیلئے بھی مفید سمجھا جاتا ہے، اس کے چھلکوں کا تیل سرکہ میں بھگو کر حاصل کرتے ہیں جو کہ ایگزیما اور آتشک میں مالش کرنے سے فائدہ دیتا ہے، اس کے مغز کا مربہ دل و دماغ کیلئے طاقتور ہے، جسم کے مسوں اور پھوڑے پھنسی کو ہٹانے کیلئے اس کا تیل لگایا جاتا ہے، اس کا مغز دانتوں کی جڑوں کو ہونے والے درد سے آرام دیتا ہے، کاجو خوش ذائقہ ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں اور آئس کریموں میں استعمال ہوتا ہے۔
خاور گلزار شعبہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے وابستہ ہیں۔