اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وزیر اعظم شہباز شریف نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پیر کی صبح 26 ویں آئینی ترمیم باقاعدہ آئین کا حصہ بنانے کے لیے صدر آصف علی زرداری کو بھیجی جس کی انہوں نے توثیق کر دی ہے، اس کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا 26 اکتوبر کے قلیل وقت تک کیا نئے چیف جسٹس کی تقرری ہو جائے گی؟
26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس کی مدت اور تقرری کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیاں لائی گئی ہیں، اس ترمیم کے بعد موجودہ چیف جسٹس کی نامزدگی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے کرے گی۔
ترمیم کی رُو سے پارلیمانی کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کیا کرے گی جبکہ ترمیم کی منظوری کے بعد موجودہ پہلی نامزدگی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل ہو گی۔
یاد رہے کہ 25 اکتوبر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت کا آخری دن ہے، 26 اکتوبر سے نئے چیف جسٹس عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اس صورت حال میں قانونی ماہرین کے مطابق نئے چیف جسٹس کی نامزدگی 22 یا 23 اکتوبر کو ہو جانی چاہئے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے، نیا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے منتخب ہو گا۔
نامزد جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا۔
چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہو گی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفیٰ دے، 65 سال کا ہو جائے یا برطرف کیا جائے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترامیم قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل متعارف کروائی گئی ہیں تو کیا وہ عہدے کی مدت میں دو سال مزید توسیع لینے کے اہل ہیں؟
اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’واضح کر دوں کہ چیف جسٹس کے لیے عمر کی آخری حد 65 برس ہی رہے گی، اس لیے کوئی اگر 64 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 65 برس میں ریٹائر ہو گا، عمر کی حد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 63 برس میں عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد ریٹائرڈ تصور ہو گا اور اسے عمر کے دو سال مزید نہیں ملیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان کی تقرری، سپیکر قومی اسمبلی نے نام مانگ لئے
چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا عمل شروع ہوگیا، سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی لیڈرز سے کمیٹی ارکان کے نام مانگے ہیں جس میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی سے اور چار سینیٹ سے لیے جائیں گے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ہوتے ہی وزارت قانون سے تین سینئر ججز کا پینل طلب کیا جائے گا، کمیٹی ججز کے پینل میں سے چیف جسٹس پاکستان کا انتخاب عمل میں لائے گی۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کب اور کیسے تشکیل پائے گی؟
نئے چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار اہم ہوگا، سرکاری ذرائع کے مطابق صدر پاکستان کے دستخط کے بعد جب 26 ویں ترمیم گزٹ آف پاکستان کا حصہ بن جائے گی تو نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی سربراہوں کو خط لکھ کر امیدواروں کے نام مانگیں گے جن پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق چونکہ نئے چیف جسٹس کی تقرری میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے لہٰذا نہیں معلوم کہ یہ پارلیمانی کمیٹی جلدی میں اتفاق رائے سے بن پائے گی یا نہیں، پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے بعد چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12 بجے تک تین سینئر ترین نام خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں جن پر غور کرنے کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نام کو نامزد کر کے نام وزیراعظم پاکستان کو بھجوائے گی۔
وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کے لیے ایڈوائس صدر پاکستان کو حتمی منظوری کے لیے بھیجیں گے، چیف جسٹس بذریعہ وزارت قانون نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے، کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کے لیے غور کرے گی، 12 رکنی کمیٹی میں اکثریتی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔
سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کیسے ہو گی؟
آئینی ترامیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری بھی کمیشن کے تحت ہو گی، 12 رکنی کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج، سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔
کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا 15 سالہ تجربہ رکھنے والا وکیل، جو پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ہو گا، شامل ہو گا، جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے جبکہ ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہو گا، جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرری کی اہلیت رکھتا ہو۔
26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہو گا جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو، سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے پانچ سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تقریر میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ عام آدمی کو آسان اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات اور انا سے بالاتر ہو کر بہترین قومی مفاد میں آگے بڑھیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق نئی ترمیم کا پہلا چیلنج یہ ہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کتنا جلد اور اتفاق رائے سے نئے چیف جسٹس کے نام پر متفق ہوتی ہیں۔