لاہور (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے عورت مارچ سے متعلق احکامات نظر انداز کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر ضلعی انتظامیہ سے جواب طلب کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں خواتین کے 12 فروری کو عورت مارچ کرنے کے پروگرام سے متعلق احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس انوار حسین نے خواتین لینہ غنی، نیلم حسین ، فاطمہ جان اور شیرین عمیر کی درخواست پر سماعت کی۔
پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد عثمان خان پیش ہوئے۔
درخواست گزار خواتین کی جانب سے ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی آپریشنز اور سی ٹی او کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ ڈی سی لاہور کو عورت مارچ کیلئے اجازت کی درخواست دی لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ ذیشان ظفر ہاشمی نے موقف اختیار کیا کہ عورت مارچ درخواست گزاروں کا بنیادی حق ہے، کسی شہری کو پرامن احتجاج سے نہیں روکا جا سکتا۔
ایڈووکیٹ ذیشان ظفر ہاشمی نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے ڈی سی لاہور کو 10 جنوری اور 14 جنوری کو 12 فروری کو لاہور پریس کلب سے ایجرٹن روڈ تک منعقد ہونے والے عورت مارچ کی سکیورٹی اور تعاون کیلئے درخواستیں دائر کی گئیں۔
وکیل نے درخواست میں نکتہ اٹھایا کہ یہ بات واضح ہے کہ ڈی سی لاہور سمیت دیگر فریقین جان بوجھ کر عورت مارچ کی تنظیم کو جواب نہیں دے رہے، 2023 میں بھی فریقین ایسے ہی حیلے بہانے استعمال کر رہے تھے جس بنا پر لاہور ہائیکورٹ کو عورت مارچ کے حوالے سے فیصلہ جاری کرنا پڑا کہ فریقین کی ذمہ داری ہے کہ عورت مارچ کی تنظیم سے تعاون اور سیکورٹی فراہم کریں۔
دوران سماعت استدعا کی گئی کہ عدالت ڈی سی آفس سمیت دیگر فریقین کو شوکاز نوٹس جاری کرے، فریقین کو ذاتی حیثیت میں طلب کرے اور کارروائی کے بعد توہین عدالت کی سزا سنائے، عدالت 2023 کے عورت مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے فریقین کو ہدایت جاری کرے۔
جسٹس انوار حسین نے کہا کہ اس وقت اب کیا ایشیو ہے؟ خواتین بھی یہاں ہیں، عورت مارچ کا معاملہ بار بار کیوں آ رہا ہے؟ جس پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد عثمان نے توہین عدالت درخواست کی مخالفت کی اور عدالت کو بتایا کہ کسی عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے عورت مارچ سے متعلق احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا سمیت دیگر سے 3 فروری تک جواب طلب کر لیا۔