خشک سالی اور اسلامی تعلیمات

Published On 11 April,2025 11:47 am

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) خشک سالی صرف زمین کی پیاس نہیں، بلکہ انسانیت کے اعمال کی سزا بھی ہو سکتی ہے، جب زمین سے بارش تھم جائے، کھیتیاں سوکھ جائیں، جانور مرنے لگیں تو ہمیں صرف آسمان کو نہیں بلکہ اپنے دل کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کیلئے توبہ واستغفارکر کے گناہوں کی معافی بھی مانگنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ایسے مواقع پر اُمت محمدیہ کیلئے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اکرمﷺ کی تعلیمات واحکامات کیا ہیں، اس مضمون میں انہیں بیان کیا جائے گا۔

برے اعمال اور ربّ کی نافرمانی
قرآن حکیم میں ہے: ’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اللہ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں‘‘(الروم:41)۔

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’ جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی (کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے‘‘ (الشوریٰ:30)

اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مختلف صورتیں
’’سو ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کے باعث پکڑ لیا، ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جس پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی، ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے دہشت ناک آواز نے آپکڑا، ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا، ان میں سے (ایک) وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور ہرگز ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرے، بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (العنکبوت: 40)

نافرمانی اورسرکشی کی وجہ سے تباہی
جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر اتر آئے اور سرکشی و بغاوت شروع کر دے تو وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہے، قرآن مجید میں ہے: ’’ کتنی ہی بستیاں ایسی تھیں جن (کے رہنے والوں) نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی و سرتابی کی، تو ہم نے ان کا سخت حساب کی صورت میں محاسبہ کیا ، انہیں ایسے سخت عذاب میں مبتلا کیا جو نہ دیکھا نہ سنا گیا تھا، سو انہوں نے اپنے کئے کا وبال چکھ لیا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے (آخرت میں بھی) سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، سو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو‘‘(الطلاق:8-10)

صدقہ وخیرات کی ادائیگی میں کوتاہی
جب معاشرے میں لوگ اپنے مالی معاملات میں صدقہ و خیرات عشر اور زکوٰۃ دینے سے پہلو تہی کرنے لگیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار ختم کر کے یا کم کر کے قحط میں مبتلا کر دیتا ہے، قرآن مجید میں باغ والوں کا قصہ بیان ہوا کہ: ’’بے شک ہم ان (اہلِ مکہ) کی (اسی طرح) آزمائش کریں گے جس طرح ہم نے (یمن کے) ان باغ والوں کو آزمایا تھا، جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ ہم صبح سویرے یقیناً اس کے پھل توڑ لیں گے اور انہوں نے (اِن شا اللہ کہہ کر یا غریبوں کے حصہ کا) اِستثناء نہ کیا، پس آپ کے رب کی جانب سے ایک پھرنے والا (عذاب رات ہی رات میں) اس (باغ) پر پھر گیا اور وہ سوتے ہی رہے، سو وہ (لہلہاتا پھلوں سے لدا ہوا باغ) صبح کو کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہوگیا‘‘ (القلم: 17-20)

اللہ کے دین سے روگردانی
جو قوم اللہ کے نازل کردہ دین سے روگردانی کو اپنا شیوہ بنا لے، تواللہ تعالیٰ ان کے مادّی وسائل کی کثرت و فراوانی کے باوجود ان کی معیشت تنگ کر دیتا ہے، فرمانِ الہٰی ہے: ’’جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کیلئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کر دیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے‘‘ (طٰہٰ: 124) جبکہ احکام الہٰی اور دینی امور پر عمل داری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔

قرآن مجیدمیں ہے: ’’اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کر دیتے، تو (انہیں مالی وسائل کی اس قدر وسعت عطا ہو جاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی)، اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی) کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)‘‘ (المائدہ: 66)۔

انبیاء کرام کی تکذیب
جو قومیں اپنے نبی کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی مخالفت میں زندگی بسر کرنا شروع کر دیتیں ہیں تو ایسی قوموں پر اللہ تعالیٰ قحط مسلط کر دیتا ہے: ’’پھر ہم نے اہلِ فرعون کو (قحط کے) چند سالوں اور میووں کے نقصان سے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘ (الاعراف:130)

ناشکری
جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے تکبر اور غرور کرنا شروع کر دے اور آخرت کو بھول جائے تو ایسی قوم کے مال و دولت کو اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کر کے عذاب سے دوچار کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف میں دو آدمیوں کا واقعہ بیان کیا ہے، جو قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے ناشکری کا راستہ اختیار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ ان سے وہ نعمتیں چھین کر انہیں مختلف طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کر دیتا ہے۔

قرآن مجید میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی، اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے‘‘ (النحل:112)

ذخیرہ اندوزی مشکلات کا باعث
جو قوم ذخیرہ اندوزی میں مبتلا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار میں کمی کر کے انہیں غربت و افلاس، فقر و فاقے اور بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے، حضرت عمر فاروقؓ ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں غلہ منڈی میں گئے اور جا کر اناج کے ڈھیروں کا معائنہ کرنے لگے، ایک جگہ آپ نے نہایت عمدہ اناج دیکھا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس غلے میں برکت عطا فرمائے اور اس کے لانے والے پر بھی رحم و کرم فرمائے، آپ کو بتایا گیا کہ اس غلہ کے مالکوں نے اس کو سٹاک کیا ہوا تھا، آپ نے دریافت کیا: کہ وہ کون ہیں؟ جنہوں نے امت کی ضرورت کے وقت اس غلہ کو سٹاک کیا ہے، آپ کو بتایا گیا کہ فلاں فلاں آدمی ہیں، آپ نے ان کو طلب کر کے فرمایا کہ: میں نے رسول کریمﷺ سے سنا ہے کہ جو آدمی لوگوں کی ضرورت کے وقت اناج ذخیرہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ کی بیماری لگا دے گا یا اسے غربت و افلاس میں مبتلا کر دے گا۔(مسندعمر بن خطاب: 136)

قطع رحمی اور ظلم کی سزا قحط سالی
جو قوم قطعی رحمی اور آپس میں رحم دلی کی بجائے سرکشی، بغاوت اور ظلم و ستم کو اپنا شعار بنا لیتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں ہی ان گناہوں کی سزا دیتا ہے، حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا میں اللہ تعالیٰ بہت جلدی دیتا ہے اور وہ گناہ یہ ہیں: قطع رحمی اور ظلم و ستم کرنا۔(ابو داؤد: 4902)۔

قحط سالی سے بچنے کیلئے اسلامی تدابیر
خشک سالی، بدحالی سے بچنے کیلئے درج ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ صحیح معنوں میں ان آفات سے بچا جا سکے۔

رجوع الی اللہ: ایمان باللہ اور خوف الہٰی دو ایسے امور ہیں جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر (ان) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے (حق کو) جھٹلایا، سو ہم نے انہیں ان اَعمالِ (بد) کے باعث جو وہ انجام دیتے تھے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا‘‘(الاعراف:96)۔

توبہ واستغفار: حضرت ربیع بن صبیحؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت حسن بصریؓ کی مجلس میں چار آدمی آئے اور انہوں نے اپنے اپنے مسائل و مشکلات حسن بصریؓ کے سامنے پیش کئے، ایک نے کہا: میں بیمار ہوں، دوسرے نے کہا: میرے پاس اولاد نہیں ہے، تیسرے نے کہا: میں نہایت غریب ہوں اور چوتھے نے کہا: کہ ہمارے علاقے میں قحط سالی کا دور دورہ ہے۔

آپؓ نے ہر ایک کو استغفار کرنے کا حکم دیا، مجلس سے ایک آدمی نے پوچھا: کہ حضرت ان کے مسائل و مشکلات علیحدہ علیحدہ ہیں،لیکن آپ نے تمام کو ایک ہی نسخہ بتایا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت حسن بصریؓ نے فرمایا کہ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سامنے استغفار کرو، وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا، اور تمہیں مال ودولت اور بیٹے بھی دے گا اور باغات بھی تمہیں عنایت فرمائے گا اور نہروں کو بھی جاری کر دے گا۔ (روح المعانی)

نماز استسقاء کا اہتمام
قحط سالی میں نبی کریمﷺ نماز استسقاء ادا کرتے اور بڑے خشوع و خضوع سے توبہ و استغفار کرتے اور یہ دعائیہ کلمات پڑھتے:’’اے اللہ! ہم پر باران رحمت نازل فرما اور نا امید ہونے والوں میں نہ بنا‘‘(الاذکارللنووی)، ’’اے اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا، اپنی رحمت کو پھیلا دے اور اپنے ویران شہر آباد کر دے‘‘ ( ابوداؤد:994)۔

حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺ کے دور میں لوگ خشک سالی سے دوچار ہوگئے تو حضرت رسول کریمﷺ مدینہ سے نکل کر بقیع غرقد کے میدان میں تشریف لائے، آپﷺ کے سرمبارک پر سیاہ عمامہ تھا، پھر آپﷺ نے قبلہ رخ ہو کر صحابہؓ کو دو رکعت بآوازِ بلند نماز پڑھائی اور اس میں سورۃ تکویر اور سورۃ ضحی تلاوت کی پھر اپنی چادر الٹ دی تاکہ خشک سالی دور ہوجائے۔

پھر آپﷺ نے حمد ِالہٰی بیان کی اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی: ’’اے اللہ! ہمارے علاقے خشک ہو چکے ہیں، ہماری زمین گرد آلود ہوگئی ہے، ہمارے جانور بھٹکنے لگے ہیں۔اے اللہ! تْو وہ ذات ہے جو برکتوں کو ان کے خزانے سے نازل فرماتا ہے، اور تو ہی رحمتوں کو ان کے خزانوں سے پھیلاتا ہے،ہم تجھ سے اس بارش کا سوال کرتے ہیں جو مددگار ہو، تو گناہوں کا بخشنے والا ہے، ہم تجھ سے اپنے سب گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں،اور اپنی بڑی بڑی خطاؤں سے توبہ کرتے ہیں، اے اللہ! تو ہم پر بارش نازل فرما، خوب جم کر برسنے والی بارش، ہمیں اپنے عرش کے نیچے سے ایسی بارش عطا فرما جو ہمارے لئے نفع بخش ہو،ایسی بارش جو زندہ کرے، تروتازہ کرے، زمین کو شاداب کرے، جس سے تو ہماری کھیتیوں کو جلدی اگا دے، ہماری برکتوں میں اضافہ کر دے اور ہماری طرف خیر و بھلائی کو متوجہ فرما دے۔

جب رسول اللہ ﷺ (یہ دعا) ختم فرما چکے تو آسمان سے بارش آنا شروع ہوگئی، جانوروں کو زندگی مل گئی، زمین سرسبز ہوگئی اور لوگ خوشحال ہوگئے، یہ سب کچھ اللہ کے رسولﷺ کی برکت سے ہوا۔( کنز العمال،23546/434/8)

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔