لاہور: (عمارہ فرحت) مجھ سمیت بیشتر افراد نے 'موت کا سایہ سر پر منڈلانا' کتابوں میں ضرور پڑھا ہو گا، اس کیفیت کو جی کے نہیں دیکھا ہو گا۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
آج سے پہلے یہ اشعار جب جب پڑھے یا سنے تو ذہن بے ساختہ کربلا گیا۔ اس کی تشریح شاید حسینیت اور یزیدیت کے حوالے کے سوا کبھی کوئی اور تھی ہی نہیں اور دل نے ہمیشہ یہ گواہی دی کہ حق اور باطل روزِ اول سے جدا ہیں اور روزِ ابد تک رہیں گے۔
آج زندگی کی اتنی بہاریں دیکھنے کے بعد، نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد پہلی مرتبہ یہ الفاظ ذہن میں اس مخصوص حوالے سے نہیں آئے۔
ایس ایس جی کمانڈو میجر عدنان نے کمال جرأت کا مظاہرہ کر کے جامِ شہادت نوش کیا، پہلے ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی اور وہ میرے ذہن میں بے انتہا سوالیہ نشان نقش کر گئی، پھر ان کی شہادت کے بعد جس طرح سوشل میڈیا نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا، میری درج بالا اشعار کی تشریح بدل گئی۔
گفتگو کا آغاز شہید میجر کی ویڈیو سے کرتے ہیں، ایک لمحے کو آنکھیں بند کیجیے اور سوچیے آپ کسی پہاڑ کی اک اندھیری غار میں ہیں، آپ کے ساتھ وہاں آپ کے والدین، اہل و عیال، دوست یار، اساتذہ، محبوب، سب موجود ہیں، سب کے سب،،، بچپن سے لے کر آج کی تاریخ تلک ہر ہر شخص جس سے آپ کا زندگی میں کبھی بھی کسی بھی نوعیت کا واسطہ پڑا ہو، وہ سب۔
پھر وہاں اسی غار میں کوئی انہونی ہو جائے، کوئی آفت آ جائے، کوئی بلا نکل آئے یا زلزلے سے غار دبنے لگے، جس قدر بھیانک آپ تخیل کر سکتے ہیں اتنی بھیانک مصیبت کا نزول ہو، منظر کیا ہو گا؟ نفسا نفسی،، ہر کسی کو اپنی جان کی پڑی ہوگی، ماسوائے آپ کے پیدا کرنے والی ماں کے، شاید اس ایک شخصیت کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی یہ پروا کرے کہ آپ غار سے نکلنے میں کامیاب ہوئے یا بھگدڑ میں کچلے گئے۔
اب ذہن واپس بنوں آپریشن پہ لائیے، مجھ سمیت بیشتر نے موت کا سایہ سر پہ منڈلانا آپ نے کتابوں میں ضرور پڑھا ہو گا اس کیفیت کو جی کے نہیں دیکھا ہو گا، اس مردِ میداں نے اس لمحے کو ہی امر کر چھوڑا، اپنی جان وار کر اپنے ساتھی کے لیے اپنے بدن کو ڈھال بنا لینا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں، اگر میں کہوں یہ فنا فی اللہ ہونے کی کوئی الگ منزل تھی تو مبالغہ نہ ہوگا۔
اس پاک سر زمین پر بہت جوانوں نے لہو وارا لیکن ایک دوسرے جوان کی جان پہ اپنی جان وار دینا۔۔۔؟؟؟ شاید بنوں میں اس دوران کہیں کسی کونے میں کھڑی مامتا کے جذبے نے آنچل کے پلو سے چہرہ ڈھک لیا ہوگا، کہ ایک جوان مامتا کے جذبے تک کو مات دے گیا، واپس اسی اندھیری غار میں جایئے، اس نفسا نفسی میں اگر آپ کی ماں بھی آپ کا ساتھ چھوڑ جاتی تو شاید ایک شخص آپ کو بچانے ضرور آتا اور وہ اور کوئی نہیں میجر عدنان شہید ہوتے۔
پہلے میں نے سن رکھا تھا کہ ایس ایس جی عام انسان نہیں ہوتے، وہ سُپر ہیومن ہوتے ہیں، پھر میں نے فلسفے میں نطشے کا “اوبر منچ” اور اقبال کا مردِ مومن پڑھا اور اس نتیجے پہ پہنچی کہ یہ شخصیات فقط ذہنی اختراع اور تخیل سے بڑھ کر کچھ نہیں اور پھر میں نے پورے ہوش و حواس میں بنفسِ نفیس میجر عدنان شہید کی ویڈیو دیکھی اور اس نتیجے پہ پہنچی کہ اگر نطشے کا ابر منچ حقیقت ہے اور اگر اقبال کا مردِ مومن اسی دنیا میں موجود ہو سکتا ہے تو وہ اور کوئی نہیں میجر عدنان شہید ہی ہیں۔ آپ میرے ان دعووں پہ ایمان لے آئیں گے پہلے واقعہ سنیے۔
میجر عدنان جن کا تعلق سکس کمانڈو سے ہے اس وقت اپنی پیرنٹ یونٹ 29FF میں سرو کر رہے تھے، جس وقت یہ حملہ ہوا یہ پٹرول پمپ کی چھت سے سنائپر پہ تھے، جیسے ہی ایس ایس جی پہنچے انہوں نے والنٹیئر کیا اور فرسٹ الفا کا حصہ بنے، پہلے ان کے دائیں گھٹنے پہ گولی لگی، یہ کوور میں گئے، وہاں انہیں ایک ایئر ڈیفنس کا جوان پانی پلانے آتا ہے، اسی لمحے دہشت گرد عمارت سے نکل کر باہر آیا اور فائر کھولے۔
آن کی آن میں ساقی عطاشی نے میجر عدنان کے وجود پہ خود کو گرا لیا، گولی جسم کے آر پار ہوگئی، اس نے دوسرا راؤنڈ کھولا اور میجر عدنان نے اپنے وجود کو دوسرے سپاہی کی ڈھال بنا دیا، اتنی دیر میں بائیں جانب سے ایک دلیر جوان نمودار ہوا جس نے دہشت گرد کو سامنے سے جہنم واصل کیا۔ اب بتائیے؟ کیا آپ نے تاریخ انسانی میں کبھی کہیں ایسا جذبہ ایثار کربلا کے سوا کہیں اور دیکھا؟ یقیناً نہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج اس شعر کو میرا دیکھنے کا زاویہ بدل گیا۔
اب آتے ہیں اس شعر کی طرف جس سے میں نے تحریر کا آغاز کیا، شعر کی زبان اتنی سادہ اور عام فہم ہے کہ مجھے مفہوم کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں، بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ کوئی شخص ہے جو دونوں طرف کھیل رہا ہے، اب آپ یہ کہیں گے کہ میں ایسی وطن دشمن سوچ پر بھی لعنت بھیجتا ہوں، چلیے کچھ سوال اٹھاتے ہیں فیصلہ آپ خود کیجیے، اگر آپ گڈ طالبان بیڈ طالبان والی بونگی پہ یقین رکھتے ہیں اور اگر آپ اپنی نجی محفلوں میں اس ادارے کے بجٹ پہ سوال اٹھاتے رہے ہیں تو جان لیجئے آپ دونوں طرف کھڑے ہیں۔
اگر آپ نو مئی کے انتشار میں شامل تھے، یا اس کا سوشل میڈیا پر ساتھ دیا، یا ان لفنگوں کو کہیں داد دی تو آپ دونوں طرف کھڑے ہیں، اگر آپ ان کے حمایتی ہیں جنہوں نے وطن پہ جان وارنے والے منظم ادارے کے خلاف عوام کی رگوں میں زہر بھرا تو آپ دونوں طرف کھڑے ہیں، پھر کوئی جواز نہیں بنتا آپ کا آج شہید میجر عدنان کی تصویر لگانے کا، یہ منافقت کا ڈھونگ مت رچائیے، جایئے جھانکیے اپنے اندر اور فیصلہ کیجئے۔
آخر میں میرے وجود کا ایک ایک خلیہ دعا گو ہے مرحوم کی بلندیِ درجات اور لواحقین کے صبر و جمیل کے لیے اور میں دل کی تمام تر گہرائیوں سے مطمئن ہوں کہ کبھی دونوں طرف والوں میں نہیں کھڑی ہوئی، مجھے حق اور باطل میں پہچان ہے اور میں ہمیشہ حق کے ساتھ ہی کھڑی رہوں گی۔
پاکستان ہمیشہ زندہ باد